سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(319) سجدہ کرنے کا طریقہ

  • 17926
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 565

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نمازی سجدہ کے لیے جاتے ہوئے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے یا ہاتھ،اور گھٹنے اس کے بعد؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنن ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ

’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرنے لگے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، چاہئے کہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے رکھے۔‘‘(سنن الترمذی، کتاب ابواب الصلاۃ، باب م جاء فی وضع الرکبتین (باب منہ)، حدیث؛ 269۔ سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب کیف یضع رکبتیہ، حدیث: 840 و سنن النسائی، کتاب التطبیق، باب اول ما یصل الی الارض من الانسان، حدیث:1092)

اس حدیث کے بارے میں کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس کے الفاظ آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔ یعنی راوی نے یوں کہنا چاہا تھا کہ (وليضع ركبتيه قبل يديه) "چاہئے کہ وہ اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھے۔" کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں کے بل پر ہی بیٹھتا ہے اور اس کے گھٹنے اس کے ہاتھوں ہی میں ہوتے ہیں، نہ کہ پچھلی ٹانگوں میں، اور اونٹ اور انسان میں اس طرح سے فرق ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "جب تم میں سے کوئی سجدہ کرنے لگے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ بیٹھتا ہے۔" مفہوم واضح ہے کہ نمازی اپنے گھٹنوں کے بل نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے بلکہ چاہئے کہ نمازی پہلے اپنے ہاتھ رکھے اس کے بعد اپنے گھٹنے ٹکائے۔

اس حدیث کے برخلاف دوسرے حضرات کی دلیل بھی سنن ابی داود وغیرہ میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

’’کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تھے تو آپ اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے تھے۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب تفریح استفتاح الصلاۃ، باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ، حدیث: 838۔ سنن الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود، حدیث: 268 و سنن النسائی، کتاب صفۃ الصلاۃ، باب اول ما یصل الارض من الانسان فی سجودہ، حدیث: 1089) مگر یہ حدیث شریک بن عبداللہ القاضی کی سند سے مروی ہے جو اگرچہ ’’صادق‘‘ ہے مگر علمائے حدیث کا اتفاق ہے کہ یہ ' سيىء الحفظ ' بھی ہے (یعنی کمزور حافظے والا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ امام مسلم جب اس کی کوئی روایت لاتے ہیں تو کسی دوسرے راوی کے ساتھ ملا کر لاتے ہیں، اور اس میں ان کا اشارہ یہ ہے کہ جب یہ اکیلا ہو تو حجت نہیں ہے، لہذا یہ حدیث ضعیف ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 271

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ