سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(318) عورتوں کا نمازِ عید کے لیے نکلنا

  • 17925
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 556

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے آج کے دور میں عورتوں کے عید کے لیے نکلنے کا کیا حکم ہے، جبکہ فتنے بہت بڑھ گئے ہیں اور کچھ عورتیں خوب بناؤ سنگھار اور خوشبوئیں لگا کر نکلتی ہیں۔ اگر ہم اس کی اجازت دیں تو آپ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان کے متعلق کیا کہیں گے جس میں وہ کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے یہ چلن ملاحظہ فرما لیتے تو وہ انہیں روک دیتے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ عورتوں کوعیدگاہ کی طرف جانے کا کہا جائے تاکہ وہ اس خیر اور مسلمانوں کی نماز اور دعائے خیر میں شریک ہو سکیں، لیکن ان پر واجب ہے کہ انتہائی سادہ انداز میں بغیر زیب و زینت اور خوشبو وغیرہ کے نکلیں۔ انہیں یہ دونوں کام کرنے چاہئیں کہ عید کے لیے بھی نکلیں اور فتنے سے بھی بچیں۔ اور جو اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی زیب و زینت اور جمال کا اظہار کرتے ہوئے نکلتی ہیں اور خوشبوئیں لگا کر آتی ہیں تو یہ سب ان کی جہالت اور ان کے ذمہ داران کی کمزوری کا باعث ہے۔ اس تقصیر کے باعث انہیں ایک عام شرعی حکم سے نہیں روکا جا سکتا کہ وہ عید کے لیے نہ جائیں۔

اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ایک معروف قاعدہ ہے کہ جب کسی جائز کام کا نتیجہ حرام کی صورت میں نکلتا ہو تو وہ جائز بھی حرام ہو جاتا ہے۔ اگر عورتوں کی ایک کثیر تعداد شرعی انداز میں باہر نکلتی ہو تو ہم عمومی طور پر سب کو اس سے منع نہیں کر سکتے بلکہ ہم صرف انہیں ہی روکیں گے جو شرعی آداب کی مخالفت کرتی ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 270

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ