سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(317) بغیر عذر کے نمازِ عید سے پیچھے رہنا

  • 17924
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 511

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی شخص کو نماز عید سے پیچھے رہنا جائز ہے جبکہ اسے کوئی عذر بھی نہ ہو، اور کیا عورت کو روکا جا سکتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید نہ پڑھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکثر اہل علم کے نزدیک نماز عید فرض کفایہ ہے، اگر کچھ لوگ اس سے پیچھے رہ جائیں تو جائز ہے، مگر اس میں حاضر ہونا اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر عید پڑھنا سنت مؤکدہ ہے، کسی شرعی عذر کے بغیر اس کا ترک کرنا انتہائی نامناسب ہے۔

اس کے مقابل کچھ اہل علم کے نزدیک نماز عید فرض عین ہے جیسے کہ نماز جمعہ میں کسی مکلف آزاد اور مقیم آدمی کے لیے اس سے پیچھے رہنا جائز نہیں ہے۔ اور یہی قول باعتبار دلائل واضح اور حق و صواب کے قریب تر ہے۔ خواتین کے لیے بھی اس اجتماع میں حاضر ہونا مسنون ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ شرعی آداب کے ساتھ باپردہ ہو کر آئیں اور خوشبو اور زیب و زینت سے احتراز کرتی ہوئی آئیں۔ صحیحین میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

’’ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم نوجوان دوشیزاؤں اور ایام والیوں کو بھی نکال لے چلیں کہ وہ اس خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ ایام والیاں جائے نماز سے الگ رہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب، حدیث: 351 و صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین، حدیث: 890)

کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ:

’’ایک خاتون بول اٹھی: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے بعض کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی جس میں وہ باہر جا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہئے کہ اس کی بہن اس کو اپنی چادر میں لپیٹ لے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب، حدیث: 351 و صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین، حدیث: 890)

بلاشبہ ان احادیث میں تاکید ہے کہ عورتیں بھی عید کے لیے عیدگاہ میں نکلیں اور اس خیر اور مسلمانوں کی دعائے عام میں شریک ہوں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 269

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ