السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص نماز جمعہ میں تشہد میں آ کر ملا ہو، کیا اس نے جمعہ پا لیا یا وہ ظہر کی نماز پڑھے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور علماء کے نزدیک جمعہ پانے کے لیے کم از کم یہ ہے کہ آدمی کو دوسری رکعت کے رکوع میں جا ملے۔ اگر انسان اللہ اکبر کہہ کر امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پا لے تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت اور پڑھے، یہ اعتماد کرتے ہوئے کہ اس نے رکوع میں مل کر ایک رکعت پا لی ہے۔ ([1])
امام ابوحنیفہ اور ابن حزم رحمہما اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ امام کو نماز میں سلام سے پہلے پا لینا کافی ہے۔ میرے نزدیک جمہور کا قول راجح ہے۔ اس کی دلیل حجرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:
’’جس نے امام کے ساتھ ایک رکعت پا لی وہ اس کے ساتھ ایک اور ملا لے۔‘‘ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فرمان میں ((من ادرك من الجمعة ركعة)) یعنی جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پا لی کے الفاظ ہیں۔ دیکھیے المعجم الکبیر للطبرانی: 308/9، حدیث : 9545،9546 والسنن الکبری للبیہقی: 304/3، حدیث: 5531 و مسند ابن الجعد، ص: 290، حدیث: 1959)
ان حضرات کا استدلال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ہے:
ان من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة
’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔‘‘ (صحیح بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب من درک من الصلاۃ رکعۃ، حدیث: 555 و صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب من ادرک رکعۃ من الصلاۃ، حدیث: 607 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب الرکوع والسجود، باب فی الرجل یدرک الامام ساجدا، حدیث: 893)
یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیحین میں یہ بھی آیا ہے کہ: من أدرك ركعة أدرك الصلاة "جس نے ایک رکعت پا لی، اس نے نماز پا لی۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب من ادرک من الصلاۃ رکعة، حدیث: 580 و صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب من ادرک رکعة من الصلاۃ، حدیث: 607۔ سنن الترمذی ، کتاب الجمعۃ، باب ما جاء فیمن یدرک من الجمعۃ رکعۃ، حدیث: 524)
ان روایات کا مفہوم مخالف (بدلیل خطاب) یہ ہے کہ جو ایک رکعت سے کم پائے اس نے نماز نہیں پائی۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مفہوم مخالف نہیں لیتے ہیں، کیونکہ ایک دوسری حدیث کے الفاظ اس مفہوم کے خلاف ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چل دو، سکون اور وقار اختیار کرو، جلدی مت کرو، تو جو پا لو وہ پڑھ لو، اور جو رہ گئی ہو اسے پورا کرلو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب لا یسعی الی الصلاۃ ولیاتھا بالسکینۃ والوقار، حدیث: 636 و صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار و سکینۃ، حدیث: 602 و سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی المشی الی المسجد، حدیث: 237) فضیلۃ الشیخ کے بیان کردہ الفاظ بخاری سے ماخوذ ہیں۔)
اس حدیث میں آپ نے نماز کے پا لیے جانے والے حصے کو "صلاۃ" فرمایا ہے۔ الغرض امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے۔
[1] اصحاب الحدیث کثر اللہ سواءہم کے اکثر علماء رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک رکوع سے پہلے قیام اور قراءۃ فاتحہ تکمیل رکعت کے لیے ضروری ہے۔ (س ع)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب