سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) درمیانی تشہد میں دعائیں کہاں تک پڑھنی چاہیے؟

  • 17899
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1314

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درمیانی تشہد میں کہاں تک پڑھنا چاہئے، کلمہ شہادت تک یا اس کے ساتھ درود ابراہیمی بھی پڑھا جائے جیسے کہ آخری تشہد میں پڑھا جاتا ہے؟ براہ مہربانی دونوں جانب کے دلائل سے آگاہ فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ درمیانی تشہد میں کلمہ شہادت تک ہی کافی ہے، اس کے بعد درود شریف صرف آخری تشہد میں پڑھا جائے۔ مگر نصوص احادیث دونوں تشہدوں میں اس کا پڑھنا ثابت کرتی ہیں۔ کچھ تو صحیحین میں آئی ہیں مثلا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر سلام کہنا جان گئے ہیں، تو آپ کے لیے صلاۃ (درود) کیسے ہے؟ آپ نے فرمایا: "یوں کہا کرو:

(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ) (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاۃ علی النبی، حدیث: 5996 بروایت کعب بن عجرۃ و صحیح مسلم، کتب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی، حدیث: 406 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب التشھد، باب الصلاۃ علی النبی، حدیث: 976)

اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے، تو بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کے لیے صلاۃ (درود) پڑھا کریں، تو ہم نماز میں آپ پر کس طرح صلاۃ پڑھا کریں؟ تو آپ خاموش ہو گئے، حتیٰ کہ ہم نے چاہا کہ کاش ہم نے آپ سے نہ ہی پوچھا ہوتا۔ پھر آپ نے فرمایا: یوں کہاکرو:

(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ) (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 405 و سنن الترمذی، تفسیر القرآن، سورۃ الاحزاب، حدیث: 3220 وسنن النسائی، کتاب صفۃ الصلاۃ، باب الامر بالصلاۃ علی النبی، حدیث: 1285۔)

جناب ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے جو صحیحین میں ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ھل یصلی غیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 5999 و صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الصلۃ علی النبی، حدیث: 407)

دیکھیے ان احادیث میں درمیانی یا آخری تشہد کا کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ چناچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے کہ دونوں تشہدوں کے بعد نبی علیہ السلام کے لیے درود پڑھنا سنت ہے اور امام ابو محمد بن حزم رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

اور جمہور نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ ناقابل حجت ہے کیونکہ وہ باعتبار سند ضعیف ہے اور متن سے جو مفہوم اخذ کیا گیا ہے وہ بھی کمزور ہے۔ وہ روایت یوں ہے کہ ’’نبی علیہ السلام جب درمیانی تشہد میں بیٹھا کرتے تھے تو ایسے لگتا تھا گویا آپ کسی گرم پتھر پر بیٹھے ہوں۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، ابواب التشھد، باب فی تخفیف القعود، حدیث: 995 ضعیف و سنن النسائی، کتاب صفۃ الصلاۃ، باب التخفیف فی التشھد الاول، حدیث: 1179 ضعیف۔ مسند احمد بن حنبل: 1/286، حدیث: 3656 ضعیف۔) اس کا راوی یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ درمیانی تشہد میں بہت مختصر بیٹھتے تھے۔

یہ حدیث اولا سند کے اعتبار سے کمزور ہے، اور دوسرے باعتبار معنی بھی جو اس سے نکالا گیا ہے کمزور ہے۔ دیکھیے بندہ جب آخری تشہد میں درود شریف پڑھتا ہے جیسے کہ درمیانی تشہد میں پڑھا ہے تو اس میں مزید دعائیں بھی پڑھتا ہے۔ جیسے کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آیا ہے کہ "نبی علیہ السلام نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جایا کرے تو اسے چاہئے کہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرے، یعنی جہنم، عذاب قبر، فتنہ مسح دجال اور فتنہ زندگی و موت سے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجدو مواضع الصلاۃ، باب ما یستعاذ منہ، حدیث: 588 و مسند احمد بن حنبل: 2/477، حدیث: 10183) بلکہ بعض اہل علم تو اس تعوذ کے وجوب کے قائل ہیں، جیسے کہ امام ابن حزم ہیں اور جناب طاؤس نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ اس نے نماز میں یہ تعوذ نہیں پڑھا ہے تو انہوں نے اس کو حکم دیا کہ اپنی نماز دہرائے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد مواضع الصلاۃ، باب ما یستعاذ منہ، حدیث: 590) مگر اس مسئلے میں جمہور کی رائے زیادہ صحیح ہے کہ یہ تعوذ مستحب ہے (واجب نہیں)۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مسئی الصلاۃ میں اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ اور یہ حدیث مسئی الصلاۃ نماز کے ارکان و واجبات جاننے کے بارے میں اصل ہے۔ دعا کے سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے یہ دعا پڑھی:

(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَما أَخَّرْتُ، وَما أَسْرَرْتُ وَما أَعْلَنْتُ، وَما أَسْرَفْتُ، وَما أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ)

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث جو تشہد کے بیان میں ہے، اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر چاہئے کہ تمہارا ایک وہ دعا پڑھے جو اسے پسند ہو، اور اس کے ذریعے سے اپنے رب سے مانگے۔‘‘

الغرض آخری تشہد مے بعد دعا کرنا بالخصوص مشروع اور سنت ہے۔ چنانچہ اگر بندہ یہ اذکار اور وہ دعائین جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی احادیث میں آئی ہیں سب جمع کر لے تو یہ کلمہ شہادت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلاۃ کے برابر بن جاتی ہیں۔ اس طرح آخری تشہد مجموعی طور پر درمیانی تشہد سے دوگنا ہو جاتا ہے۔ ([1])


[1] اہل فضل علماء کے ہاں غیر منصوص مسائل میں استنباط و استدلال کے انداز متنوع ہیں۔ مجتہد مصیب کے لیے دو اجر اور مخطی کے لیے ایک اجر کا وعدہ ہے۔ درمیانی تشہد میں درود شریف پڑھنے کے مسئلہ میں ایک قول تو یہی ہے جو فضیلۃ الشیخ محمد بن عبدالمقصود صاحب حفظہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ وغیرہم کا اختیار کردہ ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔  جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول قدیم اور جمہور ائمہ کے نزدیک یہ ہے کہ درمیانی تشہد میں کلمات تشہد سے زیادہ نہ کہا جائے۔ ہمارے ہاں بھی علمائے کرام کا معمول تقریبا یہی ہے۔ فضیلۃ الشیخ محمد امین اللہ پشاوری صاحب اپنے فتاویٰ الدین الخالص (طبع اول جلد چہارم، ص: 356 تا 359) میں فرماتے ہیں

پہلی حدیث:۔۔ جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر کے بیان میں ہے، اس سے جو استدلال کیا جاتا ہے تو یقین درمیانی تشہد میں صلاۃ علی النبی ثابت ہے مگر نماز وتر میں ۔۔ اور معلوم ہے کہ نماز وتر کی کیفیات فرائض سے مختلف ہیں۔ لہذا ایک نماز کو دوسری نماز پر قیاس کرنا خالص اتباع سنت کے متلاشی کے لیے جائز نہیں ہے ، اور عبادات سراسر توقیفی عمل ہے ان میں رائے و قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہاں وتر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت کے بعد اپنے لیے صلاۃ پڑھی ہے اور دعا بھی کی ہے، تو کیا ہم دو رکعت کے بعد یہ عمل شروع کر دیں؟ کیا یہ عمل خلاف سنت نہیں ہو گا؟ جیسے کہ فضیلۃ الشیخ الالبانی رحمہ اللہ اپنی کتاب تمام المنہ، ص : 185 میں یہ لکھ آئے ہیں کہ نوافل کے اذکار کو فرائض میں پڑھنا غیر مشروع ہے۔

دوسری حدیث:۔۔ سنن دارقطنی (351/2) میں موسیٰ بن عبیدہ کی سند سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی تشہد التحيات الطيبات الزاكيات لله ۔۔۔ الخ سے جو استدلال کیا گیا ہے کہ اس میں عموم ہے اور تشہد اول و ثانی دونوں کو شامل ہے، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے، بالخصوص جب وہ عبداللہ بن دینار سے روایت کرتا ہو، جیسے کہ التقریب میں ہے اور امام دارقطنی کہتے ہیں کہ موسیٰ بن عبیدہ اور خارجہ دونوں ضعیف ہیں۔

تیسری حدیث:۔۔۔ جو دارقطنی میں عمرو بن شمر کی سند سے عبیداللہ بن بریدہ عن ابیہ سے مروی ہے، اس کی سند میں عمرو بن شمر اور جابر دونوں ضعیف ہیں۔ نیز اس میں تشہد اول کا ذکر بھی نہیں ہے۔

چوتھی حدیث:۔۔ جو محمد بن اسحاق سے مروی ہے، اس کے بھی عموم سے استدلال لیتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ "عمومات سے استدلال کر کے بہت سی بدعات کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بالخصوص خالص عبدت جیسے عمل میں عمومات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

آخر میں فضیلۃ الشیخ محمد امین اللہ صاحب کا فیصلہ یہ ہے کہ "اگر نمازی ان دلائل کی روشنی میں تشہد اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلاۃ یا دوسری دعائیں پڑھتا ہے، تو اس پر کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس سے اجتہاد میں خطا ہوئی ہے۔

ہمارے محترم شیخ حافظ عبدالعزیز صاحب علوی حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور ان کے ساتھ جناب حافظ مسعود عالم صاحب کا فتویٰ بھی اس کے قریب قریب ہے، اور راقم کے نزدیک بھی جمہور کا فتویٰ اور عمل راجح ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 255

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ