السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز کے مسئلہ میں اسے اول وقت میں پڑھنے اور ٹھنڈی کر کے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز ٹھنڈی کر کے پڑھنے کا حکم صرف نماز ظہر سے متعلق ہے جب گرمی بہت زیادہ ہو۔ اور یاد رہے کہ ہر ہر نماز کا اپنا اپنا وقت ہے اور اس مسئلے کے تین جواب ہیں:
جانب اول:۔۔ اوقات نماز کے اول و آخر کی تعیین۔ اس بارے میں سب سے عمدہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جس میں ہے کہ جبریل امین دو دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے رہے اور آپ کو نمازوں کے اوقات تعلیم فرمائے۔ پہلے دن ان کے اول اوقات اور دوسرے دن ان کے آخری اوقات بتائے، اور پھر کہا: "ان دو وقتوں کے درمیان وقت ہے۔"[1] اس میں کچھ اشکال بھی ہے جو صحیح مسلم حدیث عبداللہ بن عمرو اورابو قتادہ رضی اللہ عنہما سے حل ہوتے ہیں۔[2] ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے عشاء کا وقت متعین ہوتا ہے کہ آیا اس کا وقت آدھی رات تک ہے جیسے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل ظاہر کہتے ہیں یا نماز فجر تک، جیسے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کا قول ہے۔ تو اس میں راجح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ بیان ہے کہ نمازوں کے اوقات ایک دوسرے کے اندر داخل نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کے مستقبل اور علیحدہ علیحدہ اوقات ہیں۔ (یہ الفاظ مفہومی ہیں حوالہ سابقہ میں مفصل روایت ہے۔صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلوٰۃ بوقتھا، حدیث: 527۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال، حدیث: 85)
جانب دوم:۔۔ وہ اوقات جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان اوقات کی ابتدا میں نماز ادا کرنا مستحب ہے۔ مگر یہ مجمل اور مطلق صورت ہے، جو صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ "کون سا عمل اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟" آپ نے فرمایا:
الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا
’’نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔‘‘
جبکہ حاکم کی روایت کے لفظ ہیں:
الصلاة فى اول وقتها (المستدرک للحاکم: 1/188 سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی الوقت الاول من الفضل، حدیث 170 میں الفاظ ہیں ‘‘ ’’ یہ روایت ام فروہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور ابن سعود رضی اللہ عنہ ہی سے مروی روایت سنن ترمذی میں مذکورہ باب کے تحت 173 نمبر پر موجود ہے۔ اس کے الفاظ ہیں ‘‘)
’’نماز اپنے اول وقت میں ادا کرنا۔‘‘
اور سند اس کی صحیح ہے۔ مگر اس عموم سے دو اوقات مستثنیٰ ہیں۔ ایک نماز ظہر، جب گرمی سخت ہو تو اسے ٹھنڈا کر کے پڑھا جائے جسے کہ ابراء کہتے ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة، فان شدة الحر من فيع جهنم (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر، حدیث: 533، 534۔ صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر، حدیث: 615)
’’یعنی جب گرمی بہت سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو، بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ میں سے ہے۔‘‘
اور اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے جو صحیحین میں مروی ہے، کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ذرا ٹھنڈی کر لو۔‘‘حتیٰ کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھے اور آپ نے فرمایا:
’’بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ میں سے ہے، تو جب گرمی سخت ہوا کرے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظھر فی السفر، حدیث: 539۔ صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر، حدیث: 616)
اور دوسرا استثناء نماز عشاء کو آدھی رات تک مؤخر کرنا ہے، جہاں تک کہ لوگوں کے لیے مشقت نہ ہو، جیسے کہ حدیث میں آیا ہے اور نماز فجر کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے منہ اندھیرے (غلس) میں پڑھنا افضل ہے یا جب فضا میں سفیدی آ جائے (یعنی اسفار)۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے فجر کے اندھیرے میں پڑھنا ہی افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی ہے۔
جانب سوم:۔۔ ان اوقات کا جاننا جن میں نماز مکروہ اور ناجائز ہے اور اس مسئلے میں دو حدیثیں آئی ہیں: ایک حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ[3] اور دوسری عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ [4]سے اور دونوں ہی صحیح مسلم میں آئی ہیں۔ (محمد بن عبدالمقصود)
[1] حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت، جس کی طرف فضیلۃ الشیخ نے اشارہ کیا ہے وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے ذیل میں ہے۔ دیکھیے: سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی مواقیت الصلاۃ، حدیث: 149
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جو مفصل ہے وہ دیگر کتب میں بھی موجود ہے دیکھئے: سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی المواقیت، حدیث: 393، مسند احمد بن حنبل: 1/333 فی مسند عبداللہ بن عباس
[2] حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب اوقات الصلوات الخمس، حدیث: 612 میں ذکر ہے اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم میں نہیں ملی، تاہم عشاء کے وقت کا تعین حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے واضح طور پر ہوتا ہے۔
[3] حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج طلوع ہو رہا ہو تو اس کے بلند/ واضح ہو جانے تک نماز سے رکے ہو کیونکہ وہ شیطان کے سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔ پھر دوپہر کے وقت بھی نماز سے رکے رہو کہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے۔ پھر سورج کے غروب ہونے کے وقت بھی نماز سے رکے رہو کیونکہ وہ شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہو رہا ہوتا ہے۔" دیکھئے صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب اسلام عمرو بن عبسہ، حدیث: 832
[4] حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی ان تینوں اوقات کا ذکر ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا، حدیث: 831
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب