السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت اپنی نماز کے لیے اقامت کہہ سکتی ہے ۔ اور اس کی کیا دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں عورتیں اقامت کہہ سکتی ہیں۔ اگرچہ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ عورت کے لیے اذان یا اقامت کہنا جائز نہیں ہے۔ اور ان حضرات کی دلیل وہ حدیث ہے جو سنن بیہقی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
" لا اذان ولا اقامة على النساء " (سنن الکبری للبیہقی میں یہ روایت فضیلۃ الشیخ کے ذکر کردہ الفاظ کے بجائے " ليس على النساء اذان ولا اقامة" " ہیں، دیکھئے السنن الکبری للبیہقی 408/1، حدیث 1779) ’’یعنی عورتوں کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے۔‘‘
لیکن امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف اور ان کا اپنا قول ہے، اور ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ اسی طرح ایک اور روایت بھی ذکر کی گئی ہے جو انتہائی ضعیف ہے کہ:
النساء عين و عورات فاستروا عينهن بالسكوت و عوراتهن بالبيوت(یہ روایت فضیلۃ الشیخ کے بیان کردہ الفاظ کے ساتھ مجھے نہیں مل سکی البتہ " انما النساء عى و عورة فكفوا عيهن بالسكوت واسة وا عوراتهن بالبيوت" کے الفاظ سے ملی ہے دیکھئے: العلل المتناھیہ فی الاھادیث الواھیہ، لابن جوزی: 2/632 روایت نمبر 1044، طبع دارالکتب بیروت بتحقیق خلیل المیس، الفاظ میں معمولی فرق کے ساتھ یہ روایت کنز العمال (طبع بیروت) 16/465 حدیث 44968 میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
"عورتوں میں ایک طرح کا جھول ہوتا ہے اور یہ چھپانے کے لائق ہیں۔ سو ان کے جھول کو خاموشی کے ذریعے سے اور ان کی شخصیات کا گھروں کے ذریعے سے چھپاؤ۔"
مگر اس روایت کی سند انتہائی ضعیف ہے۔
رہی دلیل اس بات کی کہ عورتوں کے لیے اقامت جائز ہے، وہ حدیث ہے جسے ' حديث مسئ الصلاة ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو بخاری و مسلم میں روایت کی گئی ہے اور ابوداؤد میں بھی ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نمازی سے فرمایا تھا کہ:
فتوضا كما امرك الله ثم تشهد و اقم (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب من لا یقیم صلبہ فی الرکوع۔۔۔، حدیث: 861۔ سنن الترمذی، کتاب ابواب الصلاۃ، باب وصف الصلوٰۃ، حدیث: 302۔ صحیح ابن خزیمۃ: 274/1، حدیث: 545)
’’پھر وضو کر جیسے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے پھر دعا پڑھ اور اقامت کہہ۔‘‘
اور عورتیں بھی مردوں ہی کی طرح اور ان ہی کی جنس سے ہیں اور شرعی مسائل مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے بنیادی طور پر ایک سے ہیں سوائے اس کے جہاں ان میں کسی تفریق کا بیان آ جائے، اور اس مسئلہ میں تفریق کی کوئی دلیل وارد نہیں ہے۔ چنانچہ عورتوں کے لیے اقامت کہنا جائز ہو گا مگر وہیں جہاں اجنبی مرد موجود نہ ہوں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب