السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر عورت وضع حمل کی کیفیت میں ہو، اور اسے ہسپتال لے جایا گیا، اور اس کے لیے معمول کی ولادت مشکل ہو گئی تو اس کا آپریشن کیا گیا، تو کیا اس کی یہ کیفیت نفاس والی شمار ہو گی، اور اسے معین مدت تک نماز روزہ چھوڑ دینا ہو گا۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی جائے، اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں اگر عورت کا اس کی شرمگاہ سے بسبب ولادت خون جاری ہوتا ہے تو یہ نفاس والی شمار ہو گی۔ اگر خون بالکل ہی نہیں نکلتا ہے تب یہ نفاس والی نہیں ہو گی اور اس پر نماز روزہ رکھنا فرض ہو گا۔ علماء نے ایسے ہی لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کو ولادت میں کوئی خون نہیں نکلتا ہے تو یہ نفاس والی نہیں سمجھی جائے گی۔ جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے بغیر کسی خون وغیرہ کے بچے کو جنم دیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: "اس عورت کو اللہ نے پاک رکھا ہے۔" یعنی یہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر ولادت میں شرمگاہ سے خون جاری ہو تو یہ نفاس ہے اور اسے پاک ہونے تک توقف کرنا ہو گا۔ اس کے بعد غسل کر کے نماز شروع کرے۔ اور اگر سرے سے کچھ نہیں نکلتا ہے، تو اسے نماز پڑھنی چاہئے یہ نفاس والی نہیں ہے۔ علمائے حنابلہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب