السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت جسے تیسرے مہینے میں اسقاط ہوا ہے، کیا وہ نفاس والی کے حکم میں ہے یا نہیں، اور اس کے لیے نماز کا کیا حکم ہے ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کے ہاں معروف یہی ہے کہ جب کسی عورت کو تین مہینے کے بعد اسقاط ہو تو وہ نماز نہیں پڑھے گی کیونکہ اس سے ایک بچے کا اسقاط ہوا ہے جس کی خلقت شروع ہو چکی تھی، تو اس سے نکلنے والا خون نفاس ہی کا ہو گا، لہذا نماز نہ پڑھے۔ اور علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ حمل کے اکاسی دن پورے ہونے پر بچے کی خلقت واضح ہو سکتی ہے اور یہ مدت تین مہینے سے کم ہے۔ تو جب عورت کو یقین ہو کہ تین مہینے کے بعد اس کے بطن سے جو خارج ہوا ہے وہ جنین (بچہ) ہے، تو اسے آنے والا خون نفاس کا خون ہو گا۔ مگر اسی دن پہلے جو ہو تو یہ خرابی کا خون ہو گا۔ اسی وجہ سے یہ نماز نہیں چھوڑ سکتی۔ تو یہ سوال کرنے والی خاتون کو یاد کرنا چاہئے کہ اگر یہ اسقاط اسی دن سے پہلے ہوا ہے تو اسے ان دنوں کی نمازیں بطور قضا پڑھنی چاہئیں۔ اور اگر اسے یہ یاد نہ ہو کہ کتنے دن نمازیں چھوڑی تھیں تو اسے اندازہ لگا کر غالب گمان کے مطابق قضا دے دینی چاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب