سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(223) نفاس والی عورت کا ایک ہفتے میں پاک ہونا اور دوبارہ خون جاری ہونا

  • 17830
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1587

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی عورت نفاس سے ایک ہفتے کے اندر ہی پاک ہو گئی ہو اور پھر رمضان میں مسلمانوں کے ساتھ روزے بھی رکھے لیکن اسے خون پھر شروع ہو جائے تو کیا وہ اس حال میں روزے چھوڑ دے، اور کیا اسے پہلے رکھے گئے روزوں کی اور چھوڑے دنوں کی قضا دینی ہو گی ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں شک نہیں کہ عورت اپنے ایام نفاس میں چالیس دنوں کے اندر جب تک اسے خون جاری رہے روزے نہیں رکھ سکتی۔ اگر چالیس دنوں سے پہلے ہی خون رک جائے تو غسل کرے اور روزے رکھے۔ اگر چالیس دن پورے ہونے سے پہلے خون دوبارہ شروع ہو جائے تو روزے رکھنا چھوڑ دے حتیٰ کہ چالیس دن پورے ہو جائیں اور خون رکنے کے دنوں میں جو اس نے روزے رکھے ہیں، وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ وہ اس نے ایام طہر میں رکھے ہیں، اس مسئلہ میں علماء کا یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم

جواب؛ نفاس والی عورت اگر چالیس دنوں کے اندر اندر پاک ہو جائے اور چند دن روزے رکے اور پھر چالیس دن پورے ہونے سے پہلے اسے خون جاری ہو جائے تو اس نے جو روزے رکھے ہیں وہ بالکل درست ہیں۔ اور دوبارہ خون شروع ہونے کی صورت میں جب چالیس دن پورے ہو جائیں تو اسے واجب ہے کہ غسل کرے خواہ خون بند نہ بھی ہو۔ کیونکہ علماء کے صحیح تر قول کے مطابق نفاس کے زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہیں اور پھر اسے چاہئے کہ اس کے بعد ہر نماز کے وقت نیا وضو کر لیا کرے حتیٰ کہ خون اچھی طرح بند ہو جائے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو حکم دیا تھا۔ چالیس دن پورے ہونے کے بعد شوہر کو بھی اجازت ہے کہ اس سے تمتع کر سکے خواہ اسے طہر واضح نہ بھی ہو۔ کیونکہ یہ خون جیسے کہ بیان کیا گیا ہے اندرونی خرابی کا باعث ہے جو نماز روزے سے رکاوٹ نہیں ہے اور نہ ہی شوہر کے لیے ملاپ سے مانع ہے۔ لیکن اگر چالیس دنوں کے بعد آنے والا خون اس کی حیض کی تاریخوں میں آ رہا ہو تو اسے حیض قرار دے کر نماز روزہ چھوڑ دے اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 219

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ