السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کسی عورت کے ماہانہ نظام میں کمی بیشی یا ایام میں تقدیم تاخیر کے حساب سے خرابی آ جائے، تو وہ کیا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض حنبلی علماء نے جو یہ لکھا ہے کہ اس طرح کے خلل میں عورت اپنی سابقہ عادت ہی پر عمل کرے، نئی صورت پر عمل نہ کرے، حتیٰ کہ اسے یہ نئی صورت بار بار لاحق ہو، تو یہ محض ایک قول ہی ہے جس پر عمل نہیں ہے۔ بلکہ عمل اس قول صحیح پر رہا ہے جس کا "الانصاف" میں ذکر ہوا ہے اور عورتوں کو اس قول پر عمل کرنا چاہئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عورت جب خون دیکھے تو اپنی عبادت نماز روزے سے توقف کرے اور جب واضح طور پر پاک ہو (طہر آ جائے) تو غسل کرے اور نماز پڑھے، خواہ اس کی تاریخوں میں کسی قدر تقدیم ہو جائے یا تاخیر، اور اسی طرح خون کم آئے یا زیادہ، مثلا اس کی عادت پانچ ایام کی تھی ۔۔ مگر کسی دفعہ سات دن آ گئے، تو یہ سات دن ہی حیض شمار کرے، اس طرف متوجہ نہ ہو کہ اس سے پہلے کیا عادت تھی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد کی خواتین کا اس پر عمل تھا۔ حتیٰ کہ ہمارے دور کے مشائخ کے فتاویٰ بھی یہی ہیں۔ کیونکہ وہ قول جو شروع میں بتایا گیا ہے کہ عورت اپنی نئی عادت پر تبھی عمل کرے جب اسے یہ صورت تین بار درپیش ہو، یہ قول بلا دلیل ہے۔ علاوہ ازیں حیض شروع ہونے کی عمر کی بھی کوئی تعیین نہیں کی جا سکتی۔ کبھی نو سال سے کم میں بھی یہ شروع ہو سکتا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ عمر کی بھی حد نہیں کہی جا سکتی خواہ پچاس سال سے بھی بڑھ جائے۔ الغرض جب خون ہے تو یہ خون ہے، یہ اسے عبادات سے روک دیتا ہے کیونکہ یہ فطری قاعدہ ہے، جبکہ استحاضہ ایک عارضہ ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب