السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب مسح کی مدت پوری ہو جائے تو کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسح کی مدت پوری ہو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں جو مدت متعین فرمائی ہے وہ مسح کرنے کی ہے نہ کہ وضو ٹوٹنے یا طہارت پورا کرنے کی۔ لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب مسح کی مدت پوری ہو گئی تو وضو بھی ٹوٹ گیا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں مسح کرنے کی مدت بیان ہوئی ہے، یعنی اس کے بعد اب مسح کرنا جائز نہیں ہو گا۔
دیکھیے جب مدت پوری ہونے سے پہلے آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا ہے اور آپ باوضو ہو گئے ہیں تو ایک شرعی دلیل سے باوضو ہوئے ہیں، اور جو عمل شرعی دلیل سے ثابت ہوا ہو وہ کسی شرعی دلیل ہی سے ٹوٹ یا ختم ہو سکے گا۔ اور یہاں (ہمارے اس سوال میں) وضو ٹوٹنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ اور اصل بات وضو کا قائم اور باقی رہنا ہے نہ کہ اس کا توٹنا۔ اور وضو ٹوٹنے کے بارے میں بنیادی اصول وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے، کہ ایک آدمی نے کہا کہ اسے نماز کے دوران میں خیال ہوتا ہے کہ وہ کچھ محسوس کرتا ہے (یعنی وضو ٹوٹ گیا ہے) تو آپ نے فرمایا:
لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا (صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب من لم یر الوضوء الال من المخرجین من القبل والدبر، حدیث: 175، و صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب الدلیل علی ان من تیقن الطھارۃ ثم شک فی الحدث، حدیث: 361، و سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب اذا شک فی الحدث، حدیث: 177)
’’نہ پھرے حتیٰ کہ آواز سنے یا بُو پائے۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنا اسی شخص کے لیے واجب ٹھہرایا جسے اپنے وضو کے ٹوٹنے کا یقین ہو۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وضو واجب ہونے کا سبب مشکوک ہو (جیسے کہ مذکورہ بالا حدیث میں آیا ہے) یا شرعی حکم معلوم نہ ہونے کے باعث شک ہو۔ بہرحال یہ آدمی جو اپنے وضو کے متعلق جاہل ہے کہ وضو ٹوٹا ہے یا نہیں، اور شرعی حکم سے جاہل ہے، تو اس کا جواب وہی ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ ’’وہ نہ پھرے حتیٰ کہ آواز سنے یا بو پائے۔‘‘ تو یہاں اسے یقین نہیں ہے لہذا وضو باقی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب