سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) جرابوں پر کتنی نمازوں کے لیے مسح کیا جا سکتا ہے؟

  • 17765
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 946

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب ایک مسح کرنے والے نے ایک دن رات پانچ نمازوں میں اپنی جرابوں پر مسح کیا ہو تو کیا اس کے بعد اسے اپنا مسح ختم کر دینا چاہئے؟ اور اگر جرابیں میلی ہو جائیں تو کیا پانچ نمازیں پوری کرنے سے پہلے انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا وہ ان تبدیل شدہ جرابوں پر اپنا مسح جاری رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ مقصد سوال کا یہ ہے کہ وہ سوتے وقت پاؤں کو راحت دینا چاہتا ہے، صبح فجر سے عشاء تک مسح کیا، اور عشاء سے فجر کے درمیان پاؤں کو راحت دینا چاہتا ہے۔ امید ہے کہ ہمیں وضاحت فرمائیں گے ۔۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک صاحب ایمان کے لیے مشروع یہی ہے کہ مقیم ہونے کی صورت میں (اپنے موزوں یا جرابوں) ایک دن اور رات تک مسح کر سکتا ہے اور بصورت مسافر ہونے کے تین دن تین رات، جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان نقل کیا ہے:

يَمْسَحُ الْمُقِيمُ يَوْمًا وَلَيْلَةً ، وَالْمُسَافِرُ ثَلَاثًا ايام بلياليها

’’یعنی مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن رات مسح کر سکتا ہے۔‘‘ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی برروایت شاہد جناب الشیخ نے بالمعنی بیان کی ہے۔ بہرحال دیکھیے:صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، حدیث: 276 و سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب التوقیت فی المسح، حدیث: 157)

ایسے ہی چند دیگر احادیث میں وارد ہوا ہے۔ اور مسح کی ابتداء بے وضو ہونے کے بعد شمار ہو گی۔ مثلا چاشت کے وقت بے وضو ہوا اور ظہر کے وقت وضو کیا اور موزے پہن لیے، عصر کے وقت ان پر مسح کیا تو پھر اگلی ظہر تک ان پر مسح کر سکتا ہے۔ اور جب اگلی عصر کی نماز کا وقت آئے تو انہیں اتارے اور عصر سے پہلے ان کو دھوئے اور پھر دوبارہ پہن لے اور اگلے ایک دن رات تک، بصورت مقیم ہونے کے ان پر مسح کرے۔ اور اگر ان کو آرام و راحت کے لیے اتارے مثلا اس نے ظہر کے بعد وضو کر کے انہیں پہنا ہو اور عصر، مغرب اور عشاء کے لیے ان پر مسح کیا ہو، اور عشاء کے بعد سوتے وقت انہیں اتار دیا ہو تو فجر کے لیے اسے اپنے پاؤں دھونے ہوں گے، اور جب بھی انہیں پہننا ہو باوضو ہو کر پہنے تو دوبارہ ایک دن رات کے لیے ان پر مسح کر سکتا ہے۔ اور اسے اجازت ہے کہ جب انہیں اتارنا چاہے اتار دے، مگر جب اس کی نیت ہو کہ ان پر مسح کرنا ہے تو ضروری ہے کہ وضو کر کے ہی پہنے۔ کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور آپ موزے پہنے ہوئے تھے، اور آپ کا ارادہ تھا کہ ان پر مسح کریں گے، تو آپ کے خادم حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے موزے اتارنا چاہے تو آپ نے ان سے کہا:

دعهما، فانى ادخلتهما طاهرتين

’’انہیں چھوڑ، بلاشبہ میں نے انہیں طہارت کی حالت میں پہنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، حدیث: 274)

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اور حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے، اور صحیح حدیث ے، کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جب ہم سفر میں ہوں تو تین دن رات تک اپنے موزے نہ اتاریں سوائے اس کے کہ جنابت لاحق ہو، لیکن پیشاب پاخانہ اور نیند سے (نہ اتاریں)۔‘‘ (سنن الترمذی، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم، حدیث: 96۔ سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین للمسافر، حدیث: 127 صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، حدیث: 274)

الغرض ایک صاحب ایمان سفر کی صورت میں تین دن رات ان پر مسح کر سکتا ہے، اور مقیم ایک دن رات تک، لیکن جنابت کے علاوہ میں جنابت ہو تو انہیں لازما اتارنا ہو گا اور غسل جنابت میں اپنے پاؤں دھونے ہوں گے۔ اور یہ مدت پوری ہونے سے پہلے جب چاہے اتار سکتا ہے، جب دوسرے پہنتے ہوں یا میلے ہو گئے ہوں اور انہیں دھونا مقصود ہو وغیرہ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 187

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ