السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
موزوں اور جرابوں سے کیا مراد ہے اور ان پر مسح کرنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خف سے مراد وہ لفافہ سا ہے جو چمڑے وغیرہ کا بنا ہوتا ہے اور پاؤں پر پہنا جاتا ہے (جس کا اردو ترجمہ 'موزہ' ہے) اور جورب سے مراد وہ ہے جو روئی وغیرہ سے بنا ہوتا ہے۔ اور ان دونوں پر مسح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ لہذا جس نے یہ پہنے ہوئے ہوں[1] اسے وضو کے لیے ان کو اتار کر پاؤں دھونے کی بجائے ان پر مسح کرنا افضل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور میں نے چاہا کہ آپ کے موزے اتار دوں، تو آپ نے فرمایا: "انہیں رہنے دے، میں نے ان کو طہارت کر کے پہنا تھا۔"( صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، حدیث: 274) چنانچہ پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔
موزوں پر مسح کرنا قرآن حکیم اور احادیث نبویہ دونوں سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورةالمائدة
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو، تو اپنے چہروں کو دھو لیا کرو اور بازوؤں کو کہنیوں تک اور اپنے سروں کا مسح کیا کرو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ ' ارجلكم ' کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔ یعنی ' ارجُلكم ' اور ' ارجُلِكم ' (ل کی زبر اور زیر کے ساتھ)۔ اگر ل پر زبر پڑھیں ' ارجُلَكم ' تو عطف ہے ' وجوهكم ' پر۔ تو معنی ہوں گے "اپنے چہروں کو دھو لیا کرو اور پاؤں بھی دھو لیا کرو۔" ۔۔ اور اگر ' ارجُلِكم ' (ل پر زیر پڑھیں) تو اس کا عطف " رُءُوسِكُمْ ' پر ہے، اور معنی ہوں گے اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کا بھی۔" اور بیان ہو چکا ہے کہ پاؤں کا دھویا جانا یا مسح کیا جانا دونوں سنت ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اگر آپ کے پاؤں ننگے ہوتے تو انہیں دھویا کرتے تھے اور اگر موزے پہنے ہوتے تو ان پر مسح فرمایا کرتے تھے۔ اور سنت میں آپ کا یہ عمل تواتر سے ثابت ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ پاؤں پر مسح کے مسئلے میں میرے ذہن میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے چالیس احادیث وارد ہیں۔ ایک منظوم حدیث کے درج ذیل ابیات ملاحظہ ہوں:
ومما تراتو حديث كذب
ومن بنى لله بيتا واحتسب
ورؤية، شفاعة والحوض
ومسح خفين وهذى بعض
"جو احادیث متواتر آئی ہیں ان میں سے یہ احادیث ہیں: " من كذب على متعمدا "[2]
" من بني لله مسجدا "[3] اللہ تعالیٰ کا دیدار[4] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت [5]کرنا آپ کے لیے حوض کا ہونا [6]اور موزوں پر مسح کرنا۔[7] یہ چند متواتر احادیث ہیں۔"
الغرض قرآن و حدیث کے ان دلائل کی روشنی میں موزوں پر مسح کرنا سنت ہے۔ (محمد بن صالح عثیمین)
[1] بشرطیکہ وضو کر کے پہنے ہوں جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے اور شروط مسح کا ذکر بھی آگے آ رہا ہے۔ (مترجم)
[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے کہ "جس نے مجھ پر عمدا جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے، یعنی پکا سمجھے۔ یہ روایت دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 107 و سنن الترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی تعظیم الکذب علی رسول اللہ، حدیث: 2659
[3] یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف اشارہ ہے کہ "جس نے مسجد بنائی اللہ کی رضا کے لیے (وہ جان لے کہ) اس کے لیے اللہ نے جنت میں گھر بنا دیا۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب من بنی للہ مسجدا، حدیث: 450 و صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل بناء المساجد، حدیث: 533
[4] اس سے مراد اہل جنت کا اللہ پاک کو دیکھنا/اللہ پاک کا دیدار کرنا ہے۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ﴿وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ حدیث: 7434 و صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاتی الصبح والعصر، حدیث: 633
[5] حضور صلی اللہ علیہ وسلم روز قیامت اپنی امت کی سفارش و شفاعت کریں گے۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم قیامۃ مع الانبیاء، حدیث: 7510 و صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا، حدیث: 193
[6] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بہت بڑا حوض ہو گا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ دیکھیے: (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض، حدیث: 6579 و صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبینا و صفاتہ، حدیث: 2292)
[7] موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں بھی متعدد روایات ہیں۔ بطور مثال دیکھیے: (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، حدیث: 274 و سنن الترمذی، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم، حدیث: 96)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب