سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) مردوں اور عورتوں کےختنہ کرنے کا حکم

  • 17760
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 949

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مردوں اور عورتوں کے لیے ختنے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں کچھ اختلاف ہے، اور راجح قول یہی ہے کہ ختنہ مردوں کے لیے واجب اور عورتوں کے حق میں سنت ہے۔ اور اس حکم میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے لیے اس میں ایک ایسی مصلحت ہے جس کا تعلق طہارت اور شرائط نماز میں سے ایک شرط کی تکمیل سے ہے۔ کیونکہ اگر مرد کا قلفہ (شرمگاہ کے اردگرد کا غلاف) باقی ہو تو جب سوراخ سے پیشاب نکلے گا تو قلفہ میں اس کے قطرے باقی رہ جائیں گے، اور اس سے یا تو جلن اور خارش وغیرہ ہو جائے گی، یا جب بھی وہ حرکت کرے گا اس سے کچھ نہ کچھ قطرات پیشاب کے خارج ہوتے رہیں گے اور اس طرح وہ نجس اور ناپاک ہو جائے گا اور عورت کے لیے ختنے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ اس کے شہوانی جذبات کم ہو جائیں (اور اعتدال پر آ جائیں)، اور یہ ایک صفت کمال ہے اس میں کسی نجاست کے ازالے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور علماء نے ختنہ واجب ہونے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ اس سے اس کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اگر اسے ہلاکت یا بیماری کا خطرہ ہو تو یہ واجب نہ ہو گا۔ کیونکہ کوئی بھی واجب عاجز ہونے یا کسی تلف یا ضرر کے اندیشے کے تحت واجب نہیں رہتا۔

مردوں کے حق میں ختنہ واجب ہونے کی دلیل:

1: کئی احادیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نئے مسلمان ہونے والوں کو یہ حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ختنہ کر لے (یا کرا لے) (المعجم الکبیر للطبرانی: 19/14، حدیث: 20) اور ’’امر‘‘ بنیادی طور پر وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے۔

2: ختنہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان امتیاز کی ایک بڑی علامت ہے، حتیٰ کہ جنگوں میں مسلمان اپنے مقتولین کو ختنے کی علامت ہی سے پہچانتے تھے۔ لہذا یہ مسلمان ہونے کی ایک علامت ہے۔ تو جب علامت امتیاز ہے تو واجب ہوئی۔ کیونکہ مسلمان اور کافر میں امتیاز اور فرق ہونا واجب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کافروں سے مشابہت حرام ہے۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "( سنن ابی داود، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرۃ، حدیث: 4031 و مصنف ابن ابی شیبۃ: 212/4، حدیث: 19401 و مسند احمد بن حنبل 50/2، حدیث: 5114)جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

3: ختنے میں جسم کا ایک ٹکٹا کاٹنا ہوتا ہے، اور جسم کا کوئی حصہ کاٹنا حرام ہے۔ اور حرام کو کسی واجب ہی کے لیے حلال کیا جا سکتا ہے، لہذا ختنہ واجب ہوا۔

4: ختنہ اگر کسی یتیم کا کرنا ہو تو اس کا ذمہ دار اس کا ولی اور سرپرست ہے۔ اور ختنہ کرنا بظاہر اس یتیم کی جان اور اس کے مال میں تعدی اور ظلم کے مترادف ہے کیونکہ ختنہ کرنے والے کو اس کی اجرت دی جانی ہوتی ہے۔ اور اگر یہ عمل ختنہ واجب نہ ہوتا تو اس یتیم کے مال اور جسم پر یہ تعدی اور ظلم جائز نہ ہوتا۔ یہ کچھ عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ مردوں کے لیے واجب ہے۔

البتہ عورت کے لیے اس کا واجب ہونا محل نظر ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث آتی ہے کہ:

الختان سنة فى حق الرجال مكرمة فى حق النساء

:ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے لیے کرامت اور شرافت کا باعث ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 273/7، حدیث: 7112۔ سنن الکبری للبیہقی: 324،325/8، حدیث: 17343-17346 و مسند احمد بن حنبل 75/5، حدیث: 20738)

مگر یہ حدیث ضعیف ہے، اگر یہ صحیح ہوتی تو فیصل ہو سکتی تھی۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 183

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ