سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(152) کیا عورتوں کا ختنہ جائز ہے؟

  • 17759
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 932

سوال

(152) کیا عورتوں کا ختنہ جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورتوں کا ختنہ کیا جائے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدللہ ۔۔ ہاں عورتوں کا ختنہ ہونا چاہئے اور یہ محض اتنا ہی ہے کہ اس کی شرمگاہ سے ابھرا گوشت جو مرغے کی کلغی کی مانند ہوتا ہے کاٹ دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کا ختنہ کرنے والی عورت سے فرمایا تھا:

اشمى ولا تنهكى فانه ابهى للوجه، واحظى عند الزوج

’’معمولی سا گوشت اتارو، زیادہ گہرا مت کرو، بلاشبہ یہ عمل چہرے کو پررونق بناتا ہے اور شوہر کے لیے زیادہ رغبت کا باعث ہے۔‘‘ (" فانه ابهى للوجه" کی جگہ " اسرى للوجه" کے الفاظ ہیں المعجم الصغیر للطبرانی: 91/1، حدیث: 122۔ المعجم الاوسط للطبرانی: 368/2 حدیث: 2253 والسنن الکبری للبیہقی: 324/8، حدیث: 17340)

مرد کے ختنے میں مقصود یہ ہے کہ اسے طہارت حاصل ہو یعنی قلفہ (شرمگاہ کے گرد غلاف) میں پیشاب کے جو قطرے رہ جاتے ہیں ان سے تحفظ ہو۔ اور عورت کے لیے یہ ہے کہ اس کے شہوانی جذبات اعتدال میں آ جائیں۔ اگر اس کی شرمگاہ سے یہ حصہ نہ کاٹا جائے تو اس میں شہوانی جذبات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ ایک دوسرے کو گالی گلوچ میں "ابن القلفاء" کے لفظ سے گالی دیتے ہیں (یعنی بے ختنہ عورت جو مردوں کی طرف بہت زیادہ تاک جھانک کرنے والی ہوتی ہے) اور یہی وجہ ہے کہ تاتاری اور فرنگی عورتوں میں جو بدکاری پائی جاتی ہے وہ مسلمان عورتوں میں نہیں ہے اور اگر کسی لڑکی کا ختنہ بہت گہرا کر دیا جائے تو اس کے شہوانی جذبات انتہائی کمزور ہو جاتے ہیں اور مرد کا مقصد حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔ اور اگر معمولی کاٹا جائے تو اعتدال کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 182

محدث فتویٰ

تبصرے