سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) کم پانی کی صورت میں تیمم کرنا

  • 17751
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 826

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی کے پاس پانی ہو مگر وہ تمام اعضاء کے دھونے کے لیے ناکافی ہو تو کیا کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسے شخص کے ذمے ہے کہ جس قدر پانی موجود ہے اس سے اپنے اعضاء دھوئے اور باقی کے لیے مسح کرے۔ اگر یہ آدمی پانی کے ہوتے ہوئے تیمم کرے گا، تو اس کے لیے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ اس کے پاس پانی نہیں ہے۔ اور س بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

﴿فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا...﴿٦﴾... سورةالمائدة

’’پس (اگر) پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔‘‘

اور یہ فرمان ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦﴾... سورةالتغابن

’’اور اللہ سے ڈرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ .

’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنی تم میں اس کی طاقت ہو اس پر عمل کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 6858 و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، حدیث: 1337 السنن الکبری للبیہقی: 253/4، حدیث: 8003)

تو آدمی جب اس پانی سے جو ممکن ہوا اپنے اعضاء دھوئے گا تو اس میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہو گا، اور باقی اعضاء میں وہ معذور ہو گا، تو اس کے بدل کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اور ان دونوں حکموں میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ پانی کا استعمال اللہ کا تقویٰ ہے، اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بھی اللہ کا تقویٰ ہے۔

اور جو ہم نے کہا اس کے لیے حدیث نبوی سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا تھا، جو زخمی ہو گیا تھا، کہ ’’تجھے یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر کپڑا باندھ لیتا پھر اس پر مسح کر لیتا۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب فی المجروح تیمم، حدیث: 336 و سنن الدارقطنی: 189/1، 190)

اگر یہ کہا جائے کہ یہاں بدل اور مبدل منہ دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے (یعنی تیمم اور پانی کا استعمال) تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟

ہم کہتے ہیں کہ یہاں تیمم دھوئے گئے اعضاء پر نہیں ہے، بلکہ ان اعضاء پر ہے جو دھوئے نہیں جا سکتے۔ تو یہ مسئلہ ایک اعتبار سے موزوں پر مسح کے مشابہ ہے کہ اس میں بھی کچھ اعضاء کو دھویا جا سکتا ہے اور کچھ پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ یعنی پاؤں پر جن پر موزے ہوتے ہیں تو اس میں بدل اور مبدل منہ کو جمع کیا ہوتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 178

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ