سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) عارضہ کی وجہ سے رطوبت کا نکلنا

  • 17741
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1720

سوال

(134) عارضہ کی وجہ سے رطوبت کا نکلنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس عورت کے متعلق کیا حکم ہے جسے بغیر کسی تحریک کے سیلان رطوبت کا عارضہ ہو یا کسی معمولی تحریک سے ایسے ہو جاتا ہو؟ اس سے میں بہت پریشان ہوں اور ہر روز غسل کرنا پڑتا ہے اور بہت زیادہ نہانے سے بڑی مشکل میں ہوتی ہوں جبکہ آج کل موسم بھی سردی کا ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نہیں آپ کو غسل کرنا واجب نہیں ہے اور نہ کوئی اس کا سبب ہے، نہ سردی میں اور نہ گرمی میں۔ غسل اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب ہم بستری ہو یا احتلام یا جاگتے میں شہوت کے زیر اثر مادہ کا اخراج ہو، یا خواب میں ہم بستری کا کوئی منظرنظر آئے اور پھر جسم پر یا کپڑے پر نمی کا اثر ظاہر ہو تو اس سے غسل کرنا واجب ہوتا ہے۔ ورنہ ویسے ہی زرد پانی وغیرہ کا نکلنا اس سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔

سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا ہے، تو کیا عورت پر بھی غسل واجب ہے جسے اسے احتلام ہو؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جب اسے نمی محسوس ہو۔‘( صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الحیاء فی العلم، حدیث: 130 و صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا، حدیث: 313۔) تو آپ نے اس خاتون سے فرمایا کہ احتلام کی صورت میں، جب وہ اپنے جسم یا کپڑے پر نمی پائے (یعنی اپنی منی)، کہ خواب میں اسے کوئی لذت محسوس ہوئی (تو اس پر غسل واجب ہے)۔ لیکن اگر خواب میں احتلام ہو (اور تلذذ پائے) مگر جسم پر یا کپڑے پر یا بستر پر کوئی نمی نہیں ہے، ایسے ہی مردوں کے لیے ہے کہ اگر اس سے مذی کا اخراج ہو، تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف وضو واجب ہوتا ہے، اور اس سے پہلے وہ اپنا جسم اور اپنا کپڑا وغیرہ صاف کر لے۔ اور یہی حال آپ (خاتون) کا ہے کہ عام حالات میں کوئی رطوبت خارج ہو، نمی محسوس ہو تو  اس سے غسل واجب نہیں۔ ہں اگر یہ شہوت کے زیر اثر ہو یا شوہر کے ساتھ مبشرت سے یا احتلام سے، تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 173

محدث فتویٰ

تبصرے