السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خواتین کی شرمگاہ سے خارج ہونے والی رطوبت کا کیا حکم ہے، کیا یہ نجس ہوتی ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کپڑے نجس ہو جاتے ہیں؟ اوراس حالت میں ان کی ان عبادات کا کیا حکم ہے جو کئی کئی دن یا لمبے وقت تک جاری رہتی ہیں مثلا حج و عمرہ، طواف اور مسجد کے اندر بیٹھنا وغیرہ؟ اور اس رطوبت کا کیا حکم ہے جو صنفی حرکات (بوس و کنار) کے باعث خارج ہو جاتی ہے جبکہ عملا مباشرت نہیں ہوتی ہے۔ کیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے جیسے کہ غسل جنابت سے یا کچھ اور ۔۔۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(حیض، نفاس اور مادہ منویہ کے علاوہ) عورت کے قبل سے خارج ہونے والی رطوبت بھی نجس ہوتی ہیں، ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بدن کے جس حصے یا کپڑے کو لگیں تو وہ نجس ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں عورت پر لازم ہے کہ استنجا کرے، وضو کرے، جسم کا وہ حصہ دھوئے جسے یہ لگی ہو اور کپڑا بھی دھوئے۔ اور ایک اصول قاعدہ مسلمان کے لیے یہ ہے کہ اس کے سبیلین (قبل و دبر) سے اگر کچھ ہوا خارج ہو اور وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس پر وضو واجب ہوتا ہے۔
اور جس عورت کو مسلسل یہ عارضہ ہو تو سے چاہئے کہ استنجا کرے، جسم کو صاف کر کے لنگوٹ اس طرح باندھے کہ باہر کچھ نہ نکلے نہ لگے، اور ہر نماز کے لیے نیا وضو کیا کرے اور ایسے ہی طواف کے لیے بھی۔ اور اس کے لیے مسجد میں بیٹھنا بھی جائز ہے۔ کیونکہ یہ رطوبات حیض نہیں ہیں۔ مسجد میں بیٹھنے سے مانع صرف حیض و نفاس ہے یا جنابت اور زوجین کی ملاعبت کے دوران جو خارج ہو۔ اگر وہ منی نہ ہو (جو لذت سے اوجھل کر نکلتی ہے) تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب