السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت نے اپنے بالوں میں تیل لگایا ہو اور پھر اس پر مسح کرے تو کیا اس کا وضو صحیح ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کے جواب سے پہلے میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ عزوجل نے اپنی کتاب مبین میں فرمایا ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورةالمائدة
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھنے کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے دھو لیا کرو، اور اپنے بازوؤں کو بھی کہنیوں تک، اور اپنے سروں کا مسح کیا کرو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔‘‘
ان دھوئے جانے والے اعضاء کو دھونے کا حکم اور مسح کے اعضاء پر مسح کا حکم اس بات کو لازم ہے کہ اگر ان پر کوئی تہ دار چیز لگی ہو جو پانی کو جسم تک پہنچنے سے رکاوٹ ہو یا مسح میں رکاوٹ ہو تو اسے دور کر لیا جائے۔
اسی اصول پر ہم کہتے ہیں کہ اگر انسان وضو کرنا چاہتا ہو اور اس کے اعضائے غسل پر کوئی ایسا تیل وغیرہ ہو جس کا بطور جامد ہونے کے اپنا ایک جِرم اور جسم ہو (جو پانی کے جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو) تو اس کا ازالہ ضروری ہے، اگر جِرم اور تہ دار یہ تیل وغیرہ باقی رہا تو وضو نہیں ہو گا۔ اور اگر اس تیل کی اپنی کوئی تہ نہ ہو، صرف اس کا اثر باقی رہ گیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اتنا ہی کافی ہو گا کہ وہ اپنا ہاتھ (پانی کے ساتھ) اس پر پھیرے۔ کیونکہ عموما تیل کے متعلق یہ ہے کہ یہ پانی سے علیحدہ رہتا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ پانی پورے عضو تک نہ پہنچے جسے کہ دھویا جا رہا ہے (اس لیے اس پر ہاتھ ضرور پھیر لے)۔[1]
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ یہ مسائل دور نبوت میں کسی طرح اشکال کا باعث نہیں سمجھے گئے۔ حالانکہ آپ صفائی ستھرائی کا انتہائی اہتمام فرماتے تھے، اپنے صحابہ کو تلقین فرماتے تھے بلکہ جمعہ کے لیے تو بالخصوص تاکیدا کہا گیا ہے کہ گھر میں میسر دھن (تیل وغیرہ) استعمال کیا جائے۔ اس دور میں تو کہیں کسی کے ذہن میں اس کے لگانے سے وضو ہونے نہ ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ تیل کی تہ انتہائی نامعلوم ہوتی ہے اور تیل آہستہ آہستہ جلد کے اندر جذب بھی ہو جاتا ہے، اس لیے اس قسم کے اشکالات پیدا کرنا غلو اور تنطع ہے، تیل لگانے سے غسل اور وضو وغیرہ بالکل صحیح ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب