السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس عورت نے اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگائی ہو، اس کے وضو کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ناخنوں پر لگائی جانے والی ایسی چیز جس کی اپنی ایک تہ بھی ہو جسے کہ (عربی میں) المناکیر کہتے ہیں (اردومیں ناخن پالش یا نیل پالش کہلاتی ہے)۔ عورتوں کو اپنے نماز پڑھنے کے دنوں میں، اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ طہارت (وضو غسل) کے وقت یہ چیز پانی کو جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ اور ہر وہ چیز جو وضو اور غسل میں پانی کو جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
جبکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم...﴿٦﴾... سورةالمائدة
’’اپنے چہرے اور ہاتھ دھویا کرو۔‘‘
تو جس عورت نے اس پالش کے ساتھ وضو یا غسل کیا تو اس نے ایک فریضہ چھوڑ دیا۔
اور جو خاتون ایام مخصوصہ میں ہو تو اسے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے الا یہ کہ کافر عورتوں کی خصوصیت ہو تو امام مخصوصہ میں بھی اس کا استعمال جائز نہ ہو گا، کیونکہ اس میں ان کافروں کی مشابہت ہو گی۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ حضرات نے اس (ناخن پالش وغیرہ) کے جائز ہونے کا اس طرح سے فتویٰ دیا ہے کہ یہ موزے پہننے سے مشابہ ہے۔ لہذا عورت اگر مقیم ہو تو ایک دن رات اوراگر مسافر ہو تو تین دن رات تک لگا سکتی ہے۔ لیکن یہ فتویٰ غلط ہے۔ ہر وہ چیز جسے لوگ اپنا بدن ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اسے موزوں کی طرح نہیں کہا جا سکتا ہے۔ موزوں کے متعلق شریعت کا حکم موجود ہے کہ بالعموم ضرورت کے تحت پہنے جاتے ہیں اور ان پر مسح کیا جاتا ہے۔ اور پاؤں اس بات کا محتاج ہے کہ اسے گرم رکھا جائے اوراس کی حفاظت بھی کی جائے کہ یہ زمین پر پڑتا ہے جہاں کنکر پتھر وغیرہ ہوتے ہیں اورٹھنڈک وغیرہ بھی ہوتی ہے لہذا شریعت نے ان پر مسح کرنے کی خاص رخصت دی ہے۔ اور کچھ لوگ اسے پگڑی پر قیاس کرتے ہیں۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ پگڑی کا مقام سر ہے اورسرکا فریضہ مشروع ہے بلکہ خفیف ہے کہ اس پر صرف مسح کیا جاتا ہے جبکہ ہاتھوں کا حکم یہ نہیں ہے ان کے متعلق فرض یہ ہے کہ انہیں دھویا جائے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ عورت اپنے ہاتھوں کے دستانوں پر مسح کر لیا کرے حالانکہ دستانے بھی ہاتھ کو چھپاتے ہیں۔ تو اس لیے کسی ایسے حائل کو جو پانی کے لیے جسم تک پہنچنے میں مانع اور رکاوٹ ہو، پگڑی یا موزوں پر قیاس نہ کرے۔ بلکہ مسلمان پر واجب ہے کہ حق پہچاننے کے لیے انتہا درجے کی کوشش اورمحنت کرے اور کسی فتویٰ پر پیش قدمی نہ کرے بلکہ اسے یہ شعور رہنا چاہئے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں پوچھ گچھ ہو گی، کیونکہ صاحب فتویٰ اللہ عزوجل کی شریعت کا بیان کرنے والا ہوتا ہے۔[1]،[2]
اور اللہ عزوجل ہی راہ مستقیم کی ہدایت دینے والا ہے۔
[1] اور مفتی سے بھول چوک بھی ہو سکتی ہے۔
[2] ہمارے علماء نجد اور حنبلی علمائے کرام حفظہم اللہ عورتوں کے لیے ناخن پالش کے بارے میں ناجائز ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ جبکہ راقم اور میرے ساتھ بعض فضلائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہ چیز عورتوں کے لیے عموم بلویٰ کی حیثیت سے بہت عام ہے۔ اگر کوئی عورت اس چیز کو اس نیت سے لگائے جہ جلد تک پانی نہ پہنچے تو یقینا حرام ہے، اس کا وضو اور غسل نہیں ہو گا۔ لیکن اگر اس نیت سے نہیں بلکہ زینت کے طور پر لگائی ہے، تو اس کے ہوتے ہوئے اس کا وضو اور غسل بالکل صحیح ہے کیونکہ یہ چیز جلد اور جسم کا حصہ بن جاتی ہے اور کئی دنوں کے بعد اترتی یا اتاری جاتی ہے۔ دیکھئے رنگ اور پینٹ کا کام کرنے والے بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اور یہ رنگ جب تک خاص محنت سے اتارا نہ جائے اترتا نہیں ہے اور کام کے دوران میں نماز کے لیے اس رنگ یا پینٹ کا اتارنا کام کرنے والے کے لیے تکلیف مالا یطاق ہے۔ اس طرح مٹی گارے کا کام کرنے والے بھی دیکھے جاتے ہیں کہ ان کے پاؤں کے ناخنوں کے کنارے گارے سے اٹے ہوتے ہیں، اور جب تک وہ محنت سے مٹی نہ اتاریں وہ اترتی نہیں ہے، اور کام کے دوران میں انہیں وضو کے لیے اس انداز سے مکلف کرنا تکلیف مالا یطاق ہے۔ تو چونکہ کام کے دوران میں یہ رنگ، پینٹ یا مٹی اور عورتوں کے لیے ناخن پالش ان کے جسم کا حصہ بن چکی ہوتی ہے، اس لیے وضو یا غسل میں ہاتھ پاؤں کا دھو لینا کہ اس پینٹ یا پالش پر سے پانی گزر جائے کافی ہے، ان کا وضو اور غسل بالکل درست ہے۔ جیسے کہ نبی علیہ السلام نے حج کے دوران میں اپنے سر پر لبدہ گوند وغیرہ کا لیپ کیا تھا، اور اس پر مسح کرتے رہے۔ زخم اور ہڈی اور پٹی پلستر وغیرہ پر ضسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے مسح کر لیا جاتا ہے اور کبھی دوا کے اوپر سے پانی بھی گزار لیا جاتا ہے۔
جبکہ پاک و ہند اور عرب علماء کی اکثریت کا مؤقف نیل پالش کے ناجائز اور ناقض وضوء کے حق میں ہے۔ (طاہرنقاش)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب