السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ناخن اور بال کاٹنے اور جلد صاف کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان اپنے بال کاٹے، ناخن تراشے یا جلد صاف کرے اس سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ میں اس سوال کی مناسبت سے یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جسم سے بال کاٹنا یا مونڈنا تین طرح سے ہے:
1: وہ بال جن کے دور کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، مثلا زیر ناف اور بغلوں کے بال صاف کرنے اور مونچھیں کتروانے کا حکم ہے۔
2: وہ بال جن کا کاٹنا شریعت میں منع ہے، مثلا داڑھی کے بال۔ آپ نے اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ " و فروا اللحى’’ داڑھیاں بڑھاؤ‘‘( صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، حدیث: 5553، المعجم الکبیر للطبرانی: 195/5، حدیث: 5062۔ سنن الکبری للبیہقی: 150/1، حدیث: 672۔ صحاح ستہ کی روایات میں عموما " واعفوا اللحى" کے الفاظ بیان کئے گیے ہیں۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، حدیث: 5554 و صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ، حدیث: 259 سنن الترمذی، کتاب الادب، باب اعفاء اللحیۃ، حدیث: 2763۔) جبکہ ابروؤں کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے۔
3: وہ بال جن کے متعلق شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے، مثلا سر، پنڈلیاں، بازو اور باقی جسم کے بال۔ تو جب شارع علیہ السلام ان کے متعلق خاموش ہیں تو کچھ علمء نے کہا ہے کہ ان کا مونڈنا منع ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی خلقت کو تبدیل کرنے کے معنی میں ہے۔ اوراللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنا شیطان کا کام اور اس کا حکم ہے۔ اس نے عہد کیا تھا:
﴿وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللَّهِ...﴿١١٩﴾... سورةالنساء
’’میں ان لوگوں کو بالضرور حکم دوں گا اور پھر وہ اللہ کی خلقت میں لازما تبدیلی کریں گے۔‘‘
اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ ان بالوں کو مونڈ لینا جائز ہے کیونکہ ان کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ اور شریعت میں یا تو کچھ چیزوں کے بارے میں 'حکم' ہے اور کچھ کے بارے میں 'منع' ہے اور کچھ کے بارے میں 'خاموشی' ہے۔ اگر یہ حکم ہوتا تو لازما کہہ دیا جاتا۔ اور بحیثیت استدلال یہ بات زیادہ قوی ہے کہ جن بالوں کے متعلق ممانعت نہیں آئی ہے ان کا دور کر دینا جائز ہے۔
اور جن بالوں کے مونڈنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’مونچھیں، ناخن، زیر ناف اور بغلوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے یہ مقرر فرمایا تھا کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑا کریں‘‘( سنن ابی داود، کتاب الترجل، باب فی اخذ الشارب، حدیث: 4200 و سنن الترمذی، کتاب الارب، باب التوقیت فی تعلیم الاظافر واخذ الشارب، حدیث: 2759۔ بعض روایات میں چالیس دن کی جگہ چالیس راتوں کا ذکر ہے۔ دیکھیے: صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ، حدیث: 258 و سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ، باب الفطرۃ، حدیث: 295 و سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب التوقیت فی ذلک، حدیث: 14۔)
مگر کچھ لوگ ہیں کہ وہ اپنے ناخن بڑھا کے رکھنا چاہتے ہیں، اور کئی ہیں کہ صرف چھنگلیا کا ناخن بڑھا کر رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس میں شریعت کی مخالفت ہے اور درندوں سے مشابہت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار آداب ذبح کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’جو خون بہا دے، اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ کھا لے، سوائے دانت یا ناخن کے، دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہیں۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الذبائح والصید، باب ما انھر الدم من القصب والمروۃ والحدید، حدیث: 5184 و صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب جواز الذبح بکل ما انھر الدم الا السن والظفر۔۔۔، حدیث: 1967 و سنن ابی داود، کتاب الذبائح، باب فی الذبیحۃ بالمروۃ، حدیث: 2821۔) یعنی حبشی اپنے ناخن بڑھائے رکھتے ہیں اوران سے چیرنے پھاڑنے کا کام لیتے ہیں مثلا اگر کوئی خرگوش پکڑا تو ناخن ہی سے اسے چیر پھاڑ لیا، اور چھری کی طرح استعمال کر لیا۔
تو تعجب ہوتا ہے ایسے لوگوں پر کہ اپنے مہذب و مثقف ہونے کے دعوے کرتے ہیں، اپنی صفائی ستھرائی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اور ادھر یہ حال ہے کہ ناخن بڑھائے ہوئے، بغلیں غلیظ (بال بڑھائے ہوئے) اور زیر ناف اس سے بھی بری، اور دعوے ہیں کہ ہم بڑے ترقی یافتہ ہیں، تہذیب و ثقافت اور نظافت میں ہم سب سے آگے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب