السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ کیا امور ہیں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نواقض وضو (وہ امور جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) کے بارے میں علماء میں کچھ اختلاف ہے۔ مگر ہم وہی ذکر کرتے ہیں جو باعتبار دلیل واضح ہیں:
(1) قبل یا دبر سے کچھ نکلنا:۔۔ یعنی پیشاب، پاخانہ، مذی، منی وغیرہ جو قبل یا دبر سے نکلے، وضو توڑنے کا سبب ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ اگر منی کا اخراج شہوت و جذبات کے زیر اثر ہو تو اس سے غسل واجب ہوتا ہے۔ اور اگر صرف مذی ہو تو اس سے صرف شرمگاہ اور خصیتین دھونے کے بعد وضو کر لینا کافی ہوتا ہے۔
(2) گہری نیند:۔۔ اگر کسی کو نیند اس طرح سے آ جائے کہ اگر ریح خارج ہو تو بھی بے خبر رہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن اگر کم اور ہلکی ہو، کہ ریح خارج ہو تو اسے خبر ہو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ لیٹ کو سوئے یا بیٹھ کر، سہارا لے کر یا بلا سہارا سوئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا دل ہوشیار ہے یا نہیں۔ اگر ہوشیار ہے کہ بے وضو ہونے کی صورت میں اسے معلوم ہو جاتا ہے تو یہ ناقض وضو نہیں ہے اور اگر اس پر غفلت طاری ہو کہ بے وضو ہونے کی اسے خبر نہ ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس پر وضو کرنا واجب ہو گا۔ اور یہ اس لیے ہے کہ بعض نیند ناقض وضو نہیں ہے بلکہ اس میں بے وضو ہو جانے (اور ہوا خارج ہو جانے) کا محض احتمال ہوتا ہے۔ تو جب آدمی سے ہوا خارج نہیں ہوئی، کیونکہ آدمی باشعور اور ہوشیار ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ معمولی نیند ناقض وضو نہیں ہے۔ اگر محض نیند ناقض وضو ہوتی خواہ وہ کم ہوتی یا زیادہ تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا۔ جیسے کہ پیشاب ناقض وضو ہے۔ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
(3) اونٹ کا گوشت کھانا:۔۔ جب آدمی اونٹ/اونٹنی کا گوشت کھا لے، کچا ہو یا پکا ہوا تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’کیا ہم بکری کے گوشت سے وضو کریں؟’’ فرمایا چاہو تو۔ پھر پوچھا: ’’کیا ہم اونٹ کے گوشت سے وضو کریں؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب الوضوء من لحوم الابل، حدیث: 360۔ مسند احمد بن حنبل: 93/5، حدیث: 20907۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت سے وضو کرنے کو انسان کی مرضی پر چھوڑا ہے تو دلیل یہ ہے کہ اونٹ کے گوشت کا معاملہ انسان کی مرضی پر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنا واجب ہے خواہ کچا کھائے یا پکا ہوا، سرخ ہو یا دوسرا، اوجھری، آنتیں، کلیجی، دل یا چربی وغیرہ کچھ بھی کھائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب "قے کے بعد وضو کرنا‘‘ تو معلوم نہ ہو سکا البتہ قے کی وجہ سے روزہ افطار ہو جانا (ٹوٹ جانا) تو بہرحال احادیث میں وارد ہے۔ واللہ اعلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں فرمایا۔ اور آپ کو خوب معلوم تھا کہ لوگ یہ سب کھاتے ہیں۔ اگر کوئی حکم مختلف ہوتا تو آپ ضرور بیان فرما دیتے تاکہ لوگ اپنے دین اور شریعت کے معاملے میں بابصیرت رہیں۔ اور ہمیں اپنی شریعت اسلامیہ میں ایسا کوئی جانور معلوم نہیں کہ اس کے اجزاء کے متعلق کوئی مختلف حکم ہو۔ حیوان سارے کا سارا یا حلال ہوتا ہے یا حرام۔ یا تو اس سے وضو کرنا لازم آتا ہے یا نہیں آتا ہے۔ البتہ یہودی شریعت میں ایسا فرق ضرور رہا ہے جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَعَلَى الَّذينَ هادوا حَرَّمنا كُلَّ ذى ظُفُرٍ وَمِنَ البَقَرِ وَالغَنَمِ حَرَّمنا عَلَيهِم شُحومَهُما إِلّا ما حَمَلَت ظُهورُهُما أَوِ الحَوايا أَو مَا اختَلَطَ بِعَظمٍ ...﴿١٤٦﴾... سورة الانعام
’’اور یہود پر ہم نے حرام کیا تھا ہر ناخن والا جانور اور گائے اور بکری کی چربی جو پشت پر ہو یا انتڑیوں پر یا جو ہڈی کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔‘‘
لہذا علماء کا اجماع ہے کہ خنزیر کی چربی بھی حرام ہے حالانکہ قرآن مجید نے صرف گوشت کا ذکر فرمایا ہے:
﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ...﴿٣﴾... سورةالمائدة
’’حرام کیا گیا ہے تم پر مردار اور خون، اور خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جس پر غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو۔‘‘
اور خنزیر کی چربی کے حرام ہونے میں مجھے کسی عالم کے متعلق معلوم نہیں کہ اس نے اختلاف کیا ہو۔ اس لیے مذکورہ بالا حدیث جو اونٹ کے متعلق آئی ہے اس میں چربی، آنتیں اور اوجھری وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب