سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت کرنا

  • 17703
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 3527

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کے لیے طہارت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں علماء کے مابین مشہور اختلاف ہے۔ اور جمہور کا مسلک یہ ہے کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کے لیے طہارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ پانی خواہ اس کے وضو سے بچا ہو یا غسل سے یا استنجا سے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول روایات میں سے ایک روایت یہی ہے کہ مرد کے لیے اس کا استعمال بالکل درست ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل فرمایا تھا۔"( سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ، باب الرجل والمراۃ یغتسلان من اناء واحد، حدیث: 378۔ و سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب ذکر الاغتسال فی القصعۃ التی یعجن فیھا، حدیث: 241۔) اور یہ بات اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں مرد کے لیے عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنے کی منع آئی ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب ذکر النھی عن ذلک (بعد باب الوضوء بفضل وضوء المراۃ)، حدیث: 81 و قال الالبانی صحیح، سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب الاغتسال بفضل الجنب، حدیث: 238 صحیح۔ مسند احمد بن حنبل: 4/111، حدیث: 17053۔)اگرچہ کئی اہل علم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔

مگر اس قول (جواز) کی تائید ان عمومی ارشادات سے ہوتی ہے جن میں حکم ہے کہ پانی سے طہارت کرو،  اور ان میں اس طرح کی کوئی قید اور پابندی کا ذکر نہیں ہے (کہ وہ عورت کا بچا ہوا نہ ہو)۔ لہذا ہر وہ پانی جو کسی نجاست سے آلودہ نہ ہوا ہو، وہ اس حکم عام میں داخل ہے، اور اللہ کا بھی حکم ہے کہ:

﴿لَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا...﴿٦﴾... سورة  المائدة

’’اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جب تک پانی موجود ہو تیمم کی اجازت نہیں دی ہے۔ اور عورت کا مستعمل پانی، بلاشک ’’پانی‘‘ ہے۔ اور شارع علیہ السلام کسی چیز سے بغیر کسی سبب کے منع نہیں فرماتے ہیں۔ اور اسی بقیہ پانی کے متعلق آپ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’پانی جنبی نہیں ہوتا ہے۔‘‘ اگر مرد کے لیے عورت کے بقیہ پانی سے طہارت کرنا منع ہوتا، جبکہ یہ صورتیں گھروں میں بہت زیادہ پیش آتی ہیں، اور اس میں مشقت بھی ہے اور عموم بلویٰ بھی، تو بالضرور صحیح نصوص نقل ہوتیں، جن سے یہ مسئلہ واضح ہو جاتا۔ تو یہی بات زیادہ صحیح ہے کہ مرد کے لیے عورت کے بقیہ پانی سے طہارت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری روایت جو منقول ہوئی ہے اور متاخرین میں مشہور بھی ہے کہ جس پانی سے عورت نے طہارت کی ہو، اس بقیہ پانی سے مرد کو طہارت کرنا جائز نہیں ہے، اس بارے میں جس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے، اور وہ دیگر دلائل کے بھی خلاف ہے، بالخصوص یہ کہنا اور مقید کرنا کہ وہ پانی جو عورت نے حدث سے طہارت کے لیے استعمال کیا ہو، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 147

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ