سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونا

  • 17697
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 3131

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قضائے حاجت کے وقت قبلہ رُخ ہونا یا اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کے اس مسئلہ میں کئی اقوال ہیں۔ کچھ تو اس طرف گئے ہیں کہ گھروں کے علاوہ عام مقامات پر قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پشت کر کے بیٹھنا حرام ہے۔ اور ان کی دلیل حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’پیشاب پاخانے کے وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پشت، لیکن مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لیا کرو۔‘‘ [1]

چنانچہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم علاقہ شام میں آئے تو ہم نے پایا کہ بیت الخلا کعبہ کی جانب کو بنے ہوئے تھے، تو ہم ان میں گھوم کر بیٹھتے تھے، اور اللہ سے استغفار کرتے تھے۔( صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب قبلۃ اھل المدینۃ و اھل الشام والمشرق، حدیث: 493۔ صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الاستطابۃ، حدیث: 462۔)  ان حضرات نے اس حکم کو گھروں کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی محمول کیا ہے۔

2۔ دوسرا قول یہ ہے کہ گھروں کے اندر ۔۔ قبلہ کی طرف منہ کر لینا یا پشت کر لینا جائز ہے۔ ان حضرات کی دلیل جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ’’کہتے ہیں کہ میں ایک دن (اپنی ہمشیر) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ کیے، کعبہ کی طرف پشت کیے قضائے حاجت کر رہے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب التبرز فی البیوت، حدیث: 148۔ صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الاستطابۃ، حدیث: 266۔)

3۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ گھروں کے اندر یا باہر فضا میں کہیں بھی قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا جائز ہے اور نہ پیٹھ کرنا۔ ان کا استدلال بھی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو اوپر ذکر ہوئی ہے۔ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے کئی جواب دئیے ہیں، مثلا:

(ا) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نہی سے پہلے کے حال پر محمول ہے۔

(ب) انہی کا پہلو راجح اور غالب ہے، کیونکہ نہی اصل جواز سے ناقل ہے اور جو حکم اصل جواز سے ناقل ہو وہ راجح ہوتا ہے۔

(ج) جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کے لیے فرمان ہے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ کا ذاتی فعل ہے۔ اور ناممکن ہے کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تعارض ہو۔ کیونکہ فعل میں خصوصیت کا احتمال ہوتا ہے، اور نسیاں کا احتمال بھی ہے، یا کوئی اور عذر بھی ہو سکتا ہے وغیرہ۔ بہرحال میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ:

قضائے حاجت کے لیے عام کھلی جگہوں پر قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا دونوں حرام ہیں، اور گھروں کے اندر بنے ہوئے بیت الخلا میں پیٹھ کر لینا جائز ہے نہ کہ منہ کر لینا۔ کیونکہ رخ کرنے کے متعلق احادیث محفوظ ہیں، ان میں کوئی تخصیص نہیں، اور پشت کرنے کی نہی کی احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے ساتھ مخصوص ہیں۔ نیز پشت کر لینے کا عمل منہ کرنے کی نسبت کسی قدر ہلکا بھی ہے۔ لہذا، واللہ اعلم، آدمی گھروں کے اندر ہو تو اس میں کچھ تخفیف ہے۔ افضل بہرحال یہی ہے کہ حتی الامکان پشت بھی نہ کرے۔ ،[2][3]

جواب: اس حالت میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ہے، آدمی خواہ جنگل اور صحرا میں ہو یا گھر یا تعمیر شدہ بیت الخلا میں۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں آیا ہے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو نہ پیٹھ، بلکہ مشرق و مغرب کی طرف رخ کیا کرو۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان کا بیان ہے کہ جب ہم علاقہ میں شام میں آئے تو ہم نے ایسے بیت الخلا دیکھے جو کعبہ کے رُخ پر بنے ہوئے تھے، چنانچہ ہم ان میں اپنا پہلو بدل کر بیٹھتے تھے اور اللہ سے استغفار کرتے تھے۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب قبلۃ اھل المدینۃ و اھل الشام والمشرق، حدیث: 394۔ و صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الاستطابۃ، حدیث: 264۔) چونکہ راوی حدیث صحابی نے اس حکم کو عام سمجھا ہے تو اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے استغفار کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ استنباطی دلائل بھی ہیں جو اس قول کو تقویت دیتے ہیں، مثلا وہ احادیث جن میں ایک مسلم کو قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسجد میں قبلہ کی جانب تھوک رہا ہے تو آپ نے اُسے اس سے منع فرمایا۔[4]


[1] مشرق یا مغرب کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے لیے قبلہ جنوب کی طرف بنتا ہے یا شمال کی طرف۔ اور جن لوگوں کے لیے قبلہ مغرب یا مشرق میں بنتا ہے انہیں شمال یا جنوب کی طرف منہ کرنا ہو گا۔ (مترجم)

[2] ماؤں اور چھوٹے بچوں کی نگہداشت پر مامور خواتین پر لازم ہے کہ اپنے ان بچوں کو بھی قبلہ رُخ بیٹھنے یا بٹھلانے سے احتیاط کیا کریں۔ بچے تو یقینا غیر مکلف ہوتے ہیں مگر ان کے بڑے ان امور کے یقینا ذمہ دار ہیں۔ واللہ اعلم (ع۔ف۔س)

[3] اس مسئلہ میں اس سے آگے محدث البانی رحمۃ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں یہ ہے کہ صحرا اور گھروں ہر جگہ منہ کرنے یا پشت کرنے سے بچھنا چاہئے اور یہ ہی راجح ہے (ع۔ف۔س)

[4] فضیلۃ الشیخ کے بیان کردہ الفاظ کے بجائے جن الفاظ کی روایات مجھے ملی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے کھرچ دیا اور بعد میں صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جب نماز پڑھے تو اپنے سامنے کی جانب نہ تھوکے ۔۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’اور نہ دائیں طرف تھوکے‘‘ اگر تھوکنا ہو تو اپنی بائیں جانب یا بائیں قدم کے نیچے تھوک لے۔‘‘دیکھیے (صحیح بخاری، ابواب المساجد، باب حک البزاق بالید، حدیث: 398، 400، صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب النھی عن البصاق فی المسجد، حدیث: 547 و سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب فی کراھیۃ البزاق فی المسجد، حدیث: 48)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 143

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ