السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا گاؤں والے جمعہ کی نماز گاؤں میں پڑھ سکتے ہیں علماء احناف سے سنا ہے کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز نہیں ہو سکتی اس کے لیے شہر ہونا شرط ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو مسئلہ آپ نے پوچھا اس کے بارے میں فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز- حفظہ اللہ تعالیٰ کا ایک فتویٰ میرے پاس موجود ہے اس لیے اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے شیخ موصوف کے فتویٰ کی ایک نقل جناب کو ارسال کر رہا ہوں اس کا مطالعہ فرما لیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس سے آگاہ کر دیں۔
’’عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز دو محترم بھائیوں عبدالمنان بن عبدالحق نور پوری اور محمد صدیق کی طرف اللہ تعالیٰ ان کو قول حق اور عمل بالحق کی توفیق دے اور ان کے علم وایمان میں اضافہ فرمائے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ امابعد! میرے پاس تم دونوں کی تحریر پہنچی۔ اورگائوں میں نماز جمعہ قائم کرنے کے حکم میں تم دونوں کے ذکر کردہ اختلاف میں ۔ میں نے غوروفکر کیا ہے اور تم نے مجھے فیصل تسلیم کیا ہے ۔ اور اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اورتمہیں ہدایت کی دعوت دینے والے اور حق کے مددگار بنائے۔ اور وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما دے اور اسی پر ثابت قدم رکھے ، بے شک وہ سب سے اچھا مسئول ہے ۔ اور یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حق مومن کی گم شدہ متاع ہے جب وہ اسے پاتا ہے تو پکڑ لیتا ہے اور یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ اختلافی مسائل میں مرجع اللہ کی کتاب اور سنت رسولﷺ ہے۔
جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور تم میں سے اولی الامر کی پس اگر تم کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ کے ساتھ اور آخرت کے دن کے ساتھ ۔ یہ بہتر ہے اور اچھا ہے انجام کے اعتبار سے ‘‘ (النساء59)
اور اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے:
اور جس چیز میں تم اختلاف کرو تو اس کا حکم اللہ کی طرف ہے۔(شوری10)
اور اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
کہہ دو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی پس اگر تم پھر جاؤ تو رسول کا بوجھ اس پر ہے اور تمہارا بوجھ تم پر ہے۔
اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور نہیں ہے رسول پر مگر پہنچانا ظاہر (النور54)
اور جو لوگ گاؤں میں نماز جمعہ قائم کرنے کے وجوب کے قائل ہیں اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کو صحیح سمجھتے ہیں میں نے دونوں فریقوں کے دلائل پر غور کیا ہے تو میں نے پہلے قول والوں کے دلائل کو واضح اور اکثر پایا ہے اور وہ جمہور ہیں۔ اور جو دلائل اس کو واضح کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی نماز قائم کرنا اپنے بندوں پر فرض کی ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن نماز کی اذان ہو جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف کوشش کرو اور خرید وفروخت چھوڑ دو (الآیۃ)(الجمعۃ) اور نبیﷺ کا فرمان ہے کہ لوگ ضرور بالضرور جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں گے ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلین سے ہو جائیں گے۔(مسلم۔الجمعة۔باب التغلیظ فی ترک الجمعة) اور اس لیے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں جمعہ کی نماز قائم کی اور مدینہ ہجرت کے وقت گاؤں کے حکم میں تھا اور نقیع الخضمات میں نماز جمعہ کے قائم کرنے پر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور وہ گاؤں کے حکم میں تھا۔ اور نبیﷺ سے اس کا انکار ثابت نہیں اور یہ حدیث سند حسن سے ہے اور جس نے ابن اسحاق کے ساتھ اس حدیث کی علت نکالی ہے اس نے غلطی کی ہے کیونکہ سماع کی تصریح ثابت ہے۔ (ابوداؤد۔الجمعۃ۔باب الجمعۃ فی القری) اور نبیﷺ نے فرمایا کہ نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے دیکھا کہ میں پڑھتا ہوں۔(بخاری۔کتاب الاذان۔باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعة والاقامة) اور ہم نے دیکھا کہ جس وقت سے آپ مدینہ پہنچے اسی وقت سے نماز جمعہ پڑھی اور نبیﷺنے ’’جواثا‘‘ والوں کو نماز جمعہ قائم کرنے پر برقرار رکھا اور وہ بحرین کے گاؤں میں سے ایک گائوں ہے۔ اور اس کی حدیث صحیح بخاری میں ہے۔(بخاری۔الجمعة۔باب الجمعۃ فی المدن والقری) اور اس لیے کہ نماز جمعہ جمعۃ المبارک کے دن پانچ نمازوں میں سے ایک نماز ہے تو اس کا اداکرنا شہر والوں کی طرح گائوں والوں پر بھی واجب ہے۔ اور جس طرح جمعہ کے دن کے علاوہ ظہر کی نماز تمام کے حق میں ہے اسی طرح جمعہ کے دن نماز جمعہ سب کے لیے ہے۔ اور جنگل اور سفر میں نماز جمعہ قائم نہیں کی جاتی کیونکہ اس کے قائم کرنے کا بوادی اورمسافرین کو نبیﷺ کا حکم نہیں ہے اور آپ نے سفر میں اس کو قائم نہیں کیا تو اسکے علاوہ جمعہ کو قائم کرنا واجب ہوا اور جو اس کے علاوہ ہے وہ گاؤں اور شہر ہی ہیں۔ اور جمعہ کے قائم کرنے میں بڑی حکمتیں ہیں کہ گاؤں والے ایک مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور ہرہفتہ جمعۃ المبارک کے دو خطبوں میں اللہ کے دین کے لئے وعظ ونصیحت ہوتی ہے ۔
ہمارے ذکر کردہ دلائل سے ہر منصف پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جمہور کا قول صحیح ہے اور حق کے قریب ہے بنسبت مخالفین کے اور جمہور کا قول ہی مسلمانوں کے دین اور دنیا کے معاملہ میں نفع بخش ہے اور براء ۃِ ذمہ کے قریب ہے اور اسی میں امت کی اصلاح ہے ۔
اور جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے تو وہ موقوف ہے اور مرفوع ثابت نہیں جس طرح اسی بات پر بہت زیادہ محدثین نے متنبہ کیا ہے ان میں سے امام نووی رحمہ اللہ ہیں اور موقوف کی صحت میں بھی نظر ہے کیونکہ عبدالرزاق کے ہاں اس کی اسانید میں ثوری رحمہ اللہ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی اور وہ موصوف بالتدلیس ہیں اور جابر جعفی اور حارث اعور بھی ہیں اور وہ دونوں ضعیف اور ابن ابی شیبہ کے ہاں اس کی سند میں اعمش ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی اور وہ مشہور مدلس ہیں لیکن جب ثوری اور اعمش صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آئیں تو ان کی معنعن روایت سماع پر محمول ہو گی لیکن صحیحین کے علاوہ جب وہ دونوں سماع کی تصریح نہ کریں تو ان کی روایت کی تعلیل میں کوئی رکاوٹ نہ ہے۔
یہ میرے لیے ظاہر ہوا ہے اور میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تم دونوں کو اور ہمارے سب بھائیوں کو قبول حق کی توفیق دے اور وہ ہم پر احسان کرے کہ ہم حق کو باطل پر ترجیح دے سکیں اور وہ ہمیں تعصب اور خواہش پرستی سے بچائے تمام حالتوں میں ۔ وہ اس کا ولی ہے اور اس پر قادر ہے‘‘
الرئیس العام: لادارات البحوث العلمیۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب