السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ نظر بد سے احتیاط کرے، کیا اس کا سنت میں کوئی ثبوت ہے؟ اور کیا یہ اللہ پر توکل کے خلاف نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ’’نظر لگ جانا حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آنے والی ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی، اور جب تم سے غسل کروایا جائے تو غسل کر دیا کرو۔‘‘ (صحيح مسلم، كتاب السلام، باب ابطب والمريض والرقى، حديث: 2188)
اور "نظر" سے مراد انسانی نظر ہی ہے جو بعض اوقات چیزوں پر اس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے کہ انہیں تلف اور خراب کر دیتی ہے، اور یہ سب اللہ کے حکم اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ اور یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، اتنا ضرور ہے کچھ طبیعتوں میں کوئی شرارت سی ہوتی ہے، تو جب وہ کسی چیز کو ٹکٹکی لگا کر دیکھ لیں تو اللہ کے حکم سے اس میں کچھ ایسا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چیز خراب ہو جاتی ہے یا انسان وغیرہ بیمار ہو جاتا ہے۔
اور جائز ہے کہ ان چیزوں سے محتاط رہا جائے کہ انسان کو کسی کی نظر بد لگے اور ایسے اسباب اختیار کیے جائیں جو انسان کو اس کے شر سے محفوظ رکھیں، مثلا تعوذ پڑھنا اور دم کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سید حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو جنوں اور انسانوں کی بدنظری سے تحفظ کے لیے دم کیا کرتے تھے۔ اور جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنظری سے بچاؤ کے لیے دم کیا کرتے تھے۔ اور اس دم کے الفاظ یہ ہوتے تھے:
بسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك من شر كل نفس أو عين حاسد، الله يشفيك بسم الله أرقيك. (سنن ترمذى، كتاب الجنائز، باب التعوذ للمريض، حديث: 972۔ صحيح ابن ماجه، كتاب الطب، باب ما عوذ به النبى و ما عوذ به، حديث: 3523)
’’میں تجھے اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو تجھے اذیت دے، وہ کوئی جان ہو یا کسی حاسد کی آنکھ، اللہ تجھے شفا دے، اللہ کے نام سے میں تجھے دم کرتا ہوں۔‘‘
انسان پر واجب ہے کہ یہ دعائیں پڑھا کرے اور ایسے اسباب اختیار کرے جن کے ذریعے سے وہ اس سے محفوط رہے، اور اگر یہ پریشانی آ جائے تو اس کا علاج کرے۔ اگر کسی انسان کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی نظر لگی ہے تو اسے کہے کہ وہ اپنا کپڑا وغیرہ دھو کر پانی دے، جیسے کہ حدیث میں آیا ہے کہ "جب تم سے دھلوایا جائے/غسل کروایا جائے تو دھو دو/ یا غسل کر دو۔( صحيح مسلم، كتاب السلام، باب ابطب والمريض والرقى، حديث: 2188)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب