السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا انسان کو نظر بھی لگ جاتی ہے؟ اس کا علاج کیسے ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس سے بچاؤ کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بدنظری کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ حق ہے، اور لگ جاتی ہے۔ شریعت سے اور تجربہ سے بھی یہ ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِن يَكادُ الَّذينَ كَفَروا لَيُزلِقونَكَ بِأَبصـٰرِهِم لَمّا سَمِعُوا الذِّكرَ وَيَقولونَ إِنَّهُ لَمَجنونٌ ﴿٥١﴾... سورة القلم
’’یقینا ان منکروں کی خواہش ہے کہ اپنی تیز نگاہوں سے (بدنظری سے) آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے یہی تفسیر منقول ہے کہ وہ آپ کو اپنی نظر بد کا شکار بنانے کی کوشش کرتے تھے(تفسير ابن كثير: سورة القلم، آيت: 51۔) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’نظر لگ جانا حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی ہوتی تو نظر غالب آ جاتی، سو جب تم سے غسل کروایا جائے تو اسے غسل کر دیا کرو یعنی اپنے غسل کا پانی دے دیا کرو۔‘‘ (صحيح مسلم، كتاب السلام، باب الطب والمريض والرقى، حديث: 2188۔)
اس مضمون میں سنن نسائی اور ابن ماجہ میں یہ روایت آئی ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ غسل کر رہے تھے، تو عامر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر کہہ دیا "میں نے آج کی طرح کسی مستور کا جسم نہیں دیکھا ہے،" تو کوئی دیر نہ گزری کہ وہ بے ہوش سے ہو کر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور بتایا گیا کہ انہیں بے ہوش پایا گیا ہے۔ آپ نے پوچھا: تمہیں کس پر شبہ ہے؟ انہوں نے کہا عامر بن ربیعہ پر۔ تو آپ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کی کیوں کوشش کرتا ہے، جب تمہیں اپنے بھائی سے اس کی کوئی چیز بھلی معلوم ہو تو چاہئے کہ اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔" پھر آپ نے پانی منگوایا، اور عامر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وضو کرے اپنے چہرے، بازو، کہنیوں تک، (اور پاؤں) گھٹنوں تک اور ازار کے نیچے سے بھی دھوئے، اور حکم دیا کہ یہ پانی اس (سہل رضی اللہ عنہ) پر چھڑک دیا جائے"( سنن ابن ماجه: كتاب الطب، باب العين۔ حديث: 3509) اور ایک روایت میں ہے کہ "برتن اس کے پیچھے سے اس پر انڈیلا جائے"( سنن ابن ماجه: كتاب الطب، باب العين۔ حديث: 3509) اور نظر بد کے بہت سے مشاہدات بھی ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اگر کہیں کسی کو نظر بد لگ جائے تو درج ذیل شرعی علاج کیے جائیں:
1۔ دَم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
لا رقية إلا من عين أو حمة
’’دم کرنا بدنظری میں ہے یا ڈنک میں۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الطب، باب من اکتوی او رکوی غیرہ۔۔۔ حدیث: 5378۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من لمسلمین الجنۃ ۔۔۔ حدیث: 220)
اور حضرت جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ سے دم کیا کرتے تھے:
بسم الله يشفيك بسم الله ارقيك
’’میں تجھے اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں، ہر اس شے سے جو تجھے دکھ دیتی ہے وہ کوئی جان ہو یا کسی حاسد کی آنکھ۔ اللہ تجھے شفا دے، میں اللہ کے نام سے تجھے دَم کرتا ہوں۔‘‘ (سنن ترمذى، كتاب الجنائز، باب التعوذ للمريض، حديث: 972۔ صحيح ابن ماجه، كتاب الطب، باب ما عوذ به النبى و ما عوذ به، حديث: 3523)
2۔ غسل کروانا (یعنی اس شخص سے جس کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی نظر لگی ہے) : جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا، یہ حدیث اوپر تفصیل سے ذکر ہو چکی ہے، پھر یہ پانی مریض پر چھڑک دیا جائے۔ اس کے علاوہ اس کا پیشاب یا پاخانہ یا اس کے قدموں کی خاک وغیرہ لینے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ حدیث میں صرف اس کے اعضائے وضو اور زیر جامہ کا پانی لینے کا بیان ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس کے رومال ٹوپی یا کپڑے کا پانی لینا بھی مراد ہو۔
اور پیشگی طور پر نظر بد سے بچنے کے لیے کوئی شرعی بچاؤ حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ یہ توکل کے خلاف ہے۔ بلکہ یہ عین توکل ہے کیونکہ توکل یہی ہے کہ مشروع اور مباح اسباب، جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جو جائز قرار دئیے ہیں، کا استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں جناب حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ سے دم کیا کرتے تھے:
" أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ " .
’’میں تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر بری نظر سے جو دیوانہ بنا دے۔‘‘ (صحيح بخارى، كتاب الانبياء، باب يزفون۔۔۔، حديث: 3191)
اور فرمایا کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام بھی اسی طرح اسحاق اور اسماعیل علیہم السلام کو دم کیا کرتے تھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب