سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) دم ، جھاڑ اور تعویز گنڈے کا حکم

  • 17671
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1552

سوال

(64) دم ، جھاڑ اور تعویز گنڈے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مریض کے لیے پانی میں پھونک مارنے اور دم جھاڑ اور تعویذ گنڈے کا کیا حکم ہے کہ اس میں کسی قدر لعاب بھی شامل ہوتا ہے اور پھر وہ مریض کو پلایا جاتا ہے اور اس لعاب سے شفا حاصل کی جاتی ہے یا اس آیت قرآنی یا ذِکر وغیرہ سے جو زبان سے پڑھا جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ جائز ہے، بلکہ علماء نے اس کے استحباب کی تصریح کی ہے۔ اور یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ محققین سے بصراحت ثابت ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی الجامع الصحیح میں فرماتے ہیں " باب النفث فى الرقية " (یعنی دم کرتے ہوئے لعاب آمیز پھونک مارنا) اور پھر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث لائے ہیں کہ

’’جب تم میں سے کوئی خواب میں ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اسے چاہئے کہ جاگنے پر تین بار پھونک مارے اور اس کے شر سے تین بار اللہ کی پناہ طلب کرے، تو یہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔‘‘ (صحيح بخارى، كتاب الطب، باب النفث فى الرقية، حديث 5415۔)

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی ہے کہ:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں قل ھو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر پھونکتے (اس میں کچھ لعاب بھی ہوتا) پھر انہیں اپنے چہرے اور جسم پر جہاں تک ہاتھ پہنچتا پھیرا کرتے تھے۔‘‘ (صحيح البخاري ، كتاب فضائل القرآن، باب فضل المعوذات، حديث 4729)

اسی طرح حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی وہ معروف حدیث پیش کی ہے جس میں انہوں نے ایک مریض پر فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔ اور صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ

’’وہ اس پڑحنے کے دوران میں اپنا لعاب جمع کرتے رہے اور پھر مریض پر پھونکا، چنانچہ وہ بھلا چنگا ہو گیا۔‘‘( صحيح مسلم،كتاب السلام، باب جواز اخذ الاجرة على الرقية۔۔۔، حديث 2201)

ایسے ہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سید عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بھی لائے ہیں کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دم میں یوں بھی ہے:

تربة أرضنا ، وريقة بعضنا ، يشفى سقيمنا ، بإذن ربنا (صحيح البخاري ، كتاب الطب، باب رقية النبى صلى الله عليه وسلم، حديث 5413)

’’اللہ تعالیٰ کے نام سے ہماری مٹی، ہمارے ایک کا لعاب، ہمارے بیمار کو شفا ملے، ہمارے رب کے حکم سے۔‘‘

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اس میں یہ بیان ہے کہ دم کرتے ہوئے کسی قدر لعاب بھی پھونکنا مستحب ہے، اس کے جواز پر اجماع ہے اور جمہور صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد والوں نے اسے مستحب کہا ہے۔" (شرح النووى على مسلم: 7/332، حديث 4065)

امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: "طبی تحقیقات اس بات پر گواہ ہیں کہ لعاب کو مزاج کی اصلاح و تعدیل میں بڑا عمل دخل ہے اور وطن کی مٹی بھی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر میں بہت مؤثر ہے ۔۔ اور یہاں تک کہا کہ دم جھاڑ اور اوراد کے ایسے ایسے اثرات ہیں کہ ان کی حقیقت تک پہنچنے میں عقلیں قاصر ہیں۔

اور امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں دم جھاڑ میں پھونک مارنے اور اس کے اسرار پر ایک لمبی بحث کی ہے اور آخر میں کہتے ہیں کہ ’’المختصر دم کرنے والے کی طبیعت ان خبیث نفوس کے مقابل میں آ جاتی ہے اور برے اثرات کے زائل کرنے میں پڑھنے والے کی طبیعت، اس کے دم اور لعاب سے بڑی مدد ملتی ہے اور پڑھنے والے کا اپنے دم اور لعاب سے مدد لینا بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی بدطبع اشیاء اپنے ڈنک سے بیمار کر دیتی ہیں۔ اور اس پھونکنے میں ایک سریہ بھی ہے کہ پاک یا خبیث طبیعتیں اس سے مدد لیا کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جادو گر بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو اہل ایمان کرتے ہیں۔ الخ‘‘

جناب مہنا نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جو قرآن کریم کسی برتن میں لکھ کر مریض کو پلاتا ہے، فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (امام احمد کے فرزند) جناب صالح کہتے ہیں کہ بسا اوقات میں بیمار ہو جاتا تھا تو والد گرامی پانی لے کر اس پر پڑھتے اور مجھے کہتے ہیں کہ اس سے پی لو اور کچھ سے اپنا منہ ہاتھ دھو لو۔

اور جو بیان ہوا یہ ان شاءاللہ آپ کے اس اشکال کا ازالہ کرنے کے لیے کافی ہے جو آپ کے علاقے میں مروج ہے کہ پانی پڑھ کر مریض کو پلایا جاتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 116

محدث فتویٰ

تبصرے