السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن منانا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیا صحابہ، تابعین یا ان کے علاوہ دیگر سلف صالح سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منانا دین کے اندر ایک نئی بدعت ہے اور جب سے دنیائے اسلام میں جہالت پھیلنا شروع ہوئی ہے، گمراہ ہونا اور گمراہ کرنا، وہم و شبہ میں پڑنا اور دوسروں کو اس میں مبتلا کرنے کا فتنہ پھیلا ہے لوگوں کی عقل و بصیرت پر پردے پڑ گئے ہیں اور اندھی تقلید ان پر غالب آ گئی ہے۔ یہ لوگ شرعی دلائل سے ثابت اور راجح مسائل اختیار کرنے کی بجائے فلاں اور فلاں کے قول و قرار کی طرف متوجہ ہونے لگے ہیں۔
میلاد النبی کا مسئلہ نہ تو صحابہ کرام کے ہاں کوئی قابل ذکر مسئلہ تھا اور نہ تابعین کے ہاں اور نہ تبع تابعین کے ہاں اس کی کوئی اہمیت و حیثیت تھی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثاة الأمور فإن كل بدعة ضلالة. (سنن ابن ماجه: كتاب فى الايمان و فضائل الصحابة، باب اتباع سنة الخلفاء، حديث 42۔ صحيح ابن حبان: 178/1، حديث: 5)
’’میری اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اسے خوب تھامے رہنا، بلکہ دانتوں سے پکڑے رہنا، اور نئی نئی باتوں سے بچنا، بلاشبہ (دین میں) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (سنن ابن ماجه: كتاب فى الايمان و فضائل الصحابة، باب اتباع سنة الخلفاء، حديث 42۔ صحيح ابن حبان: 1/178، حديث: 5)
"جس نے ہمارے اس معاملہ دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔"
جبکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ (صحيح مسلم، كتاب الاقضية، باب نقض الاحكام الباطلة۔۔۔، حديث: 1718۔ مسند احمد: 180/6 حديث 25511)
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا حکم اور تلقین نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
اگر لوگوں کا مقصد میلاد النبی منانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھنا ہے تو یہ مقاصد اس ناپسندیدہ بدعت کے بغیر بھی حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ یہ بدعت اپنے جلو میں بہت سے مفاسد کے علاوہ کئی فواحش و منکرات بھی لیے ہوئے ہے۔ اللہ عزوجل نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کے متعلق خود ہی فرما دیا ہے کہ:
﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ﴿٤﴾ ’’ہم نے آپ کا ذکر بہت بلند کر دیا ہے۔‘‘
چنانچہ اذان، اقامت، خطبہ، نماز میں تشہد اور درود و سلام اور جہاں بھی آپ کا نام نامی سنائی دے آپ کے لیے درود و سلام پڑھنے کا حکم ہے، ان کے ذریعے سے آپ کا ذکر ہر وقت بلند ہر رہا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے، آپ نے فرمایا:
’’بہت بڑا بخیل ہے وہ آدمی، جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور پھر وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔‘‘ (سنن ترمذى، كتاب الدعوات، باب قول رسول الله رغم انف رجل، حديث 3546 صحيح۔ مسند احمد بن حنبل: 1/201، حديث 1736، اسناده قوى)
آپ علیہ السلام کی تعظیم اس بات میں ہے کہ آپ کی تعلیمات اور آپ کی سنتوں پر عمل کیا جائے، آپ نے جو خبریں دی ہیں ان کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے آپ نے منع فرمایا ہے ان سے باز رہا جائے، عبادت اس طرح کی جائے جیسے کہ آپ کا طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بہت بالا ہیں کہ سال کے آخر میں صرف ایک بار آپ کا ذکر ہو۔
اگر میلاد کی یہ محفلیں کوئی نیکی کا کام ہوتیں یا ان کا برپا کرنا راجح اور افضل ہی ہوتا تو ہمارے سلف صالحین اس نیکی کے ہم سے کہیں بڑھ کر تھے۔ نیکی میں ان کی حرص انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
یہ محفلیں برپا کرنے والوں کا اصل معاملہ یہ ہے جیسے کہ اہل علم نے بیان کیا ہے کہ جب لوگوں کے دین میں کمزوری آئی، بے عملی اور بے دینی نے ان پر غلبہ پایا تو ان لوگوں نے موقعہ بموقعہ اپنے کچھ بزرگوں کے دن منانے شروع کر دئیے ہیں۔ اور یہ لوگ یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ ان کے یہ بزرگ دینی اعتبار سے کس پائے کے تھے، دین و شریعت کے کس قدر پابند تھے۔
دراصل یہ لوگ بزرگوں کی تعظیم کے نام سے اپنے آپ کو شریعت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بزرگ کی حقیقی تعظیم تبھی ہو سکتی ہے جب اس کی تعلیمات و ارشادات کو تسلیم کیا جائے اور وہ اعمال خیر سر انجام دئیے جائیں جن سے اس کا مقام و مرتبہ بنا ہو اور نبی کے دین کو عزت حاصل ہوئی ہو۔
ہمارے سلف صالحین نبی علیہ السلام کی تعظیم و توقیر میں بہت آگے تھے۔ اسی طرح خلفائے راشدین اور ان کے بعد دیگر صالحین کے ساتھ ان کا تعلق انتہائی معیاری تھا۔ ان کی تعظیم و توقیر میں یہ لوگ اپنے جان و مال سے کوئی دریغ نہ کرتے تھے۔ وہ ان رسموں ریتوں سے تعظیم و توقیر نہ کرتے تھے جو ہمارے اس دور میں پھیل رہی ہیں۔ یہ لوگ ان بزرگوں کی سیرت اپناتے نہیں، اتباع کرتے نہیں، بس گمراہی اور ضلالت بھرے خالی خولی نعرے ہی لگاتے ہیں اور اس میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اللہ کی مخلوق میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ یگانہ شخصیت ہیں جو کسی بندے کی طرف سے عظیم ترین تعظیم و توقیر کی مستحق ہیں جو آپ علیہ السلام کی شان کے لائق ہو۔ مگر یہ تو کوئی تعظیم نہیں کہ آپ کے لیے ایسے اعمال کرنے شروع کر دئیے جائیں جو عبادت کی شکل میں صرف اور صرف اللہ عزوجل کا حق ہے۔
اور لوگوں کی نیتوں کا بہترین اور خوبصورت ہونا بھی بدعت کے نعمل کو جائز نہیں بنا دیتا ہے۔ سابقہ امتوں میں جو گمراہیاں آئی تھیں وہ سب اچھی نیتوں کی وجہ ہی سے آئی تھیں حتیٰ کہ انہوں نے اصل دین ہی کو بدل ڈالا تھا اور اصل شریعت مٹ مٹا گئی تھی۔
ہمارے سلف صالحین نے اگر اس طرح کی غفلت کی ہوتی جیسی کہ سابقہ امتوں نے کی تھی یا جو اب ہمارے عوام کے اندر راہ پا رہی ہے تو ہمارا اصل دین بھی جائع ہو گیا ہوتا۔ مگر ہمارے صالح علماء نے ہمارے اصل دین کو ہمارے لیے محفوظ رکھا ہے۔ اللہ ان کو اپنی بے پناہ رحمتوں سے سرفراز فرمائے۔ لہذا ہمارا فرض ہے کہ اصل دین کی طرف رجوع کریں اور اپنے دانتوں سے اسے مضبوط پکڑے رہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد النبی منانا دین میں ایک ناپسندیدہ بدعت ہے اور اس موضوع پر ہم نے ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے جس میں اور بھی تفصیل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب