السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کہانت کا شرعی حکم اور ان کاہنوں کے پاس جانا کیسا ہے ۔۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الكهانة بروزن فعالة ، تكهن سے ماخوذ ہے۔ اور لغت میں اس اٹکل پچو اور اندازے کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے کسی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ دور جاہلیت میں کچھ لوگوں کا یہ فن اور کسب تھا۔ شیطانوں کا ان لوگوں سے رابطہ ہوتا تھا۔ شیطان آسمان سے کوئی کلمہ چوری چھپے سن لیتے تو ان لوگوں کو بتا دیتے اور پھر وہ اس کے ساتھ اور بہت کچھ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے تھے۔ اگر کوئی بات ان کے کہنے کے مطابق ہو جاتی تو لوگ ان کے بھرے میں آ جاتے اور اپنے معاملات میں ان کو حکم اور قاضی بنا لیتے تھے اور مستقبل کے امور میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اسی وجہ سے کاہن کی تعریف ہم یہ کرتے ہیں کہ ’’وہ شخص جو مستقبل میں ہونے والے غیب کی خبریں بتائے۔‘‘[1]
اور کاہن کے پاس آنے والے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
1۔ کوئی شخص کاہن کے پاس جائے اور اس سے کچھ سوال بھی کرے، بغیر اس کے کہ اس کی کسی طرح کوئی تصدیق کرے۔ یہ ناجائز اور حرام ہے، اور ایسا کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے۔ جیسے کہ صحیح مسلم میں آیا ہے: من آتى عرافا فساله لم تقبل له، صلاة اربعين يوما او اربعين ليلة "( صحيح مسلم، كتاب السلام، باب تحريم الكهانة ۔۔۔ حديث: 4430) جو شخص کسی عراف (غیب کی باتیں بنانے والے) کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس کی چالیس دن یا چالیس رات کی نمازیں قبول نہیں کی جاتی ہیں۔‘‘
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کاہن کے پاس آئے، اس سے سوال کرے اور اس کی تصدیق بھی کرے، تو یہ کفر ہے۔ کیونکہ اس نے اس کے دعویٰ علم غیب کی تصدیق کی ہے اور کسی انسان کی اس طرح سے تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب ہے:
﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ... ﴿٦٥﴾... سورةالنمل
’’کہہ دیجیے کہ زمین و آسمان میں غیب اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے کہ:
«مَنْ أَتَى كَاهِنًا، أَوْ عَرَّافًا، فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ» (مسند احمد بن حنبل: 429/2، حديث: 9532)
’’جو شخص کسی کاہن کے پاس آئے اور اس کے کہے کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے گئے کی تکذیب کی۔‘‘
3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی لوگوں کو بتانے اور ان کی جہالت اور گمراہی بتانے کے لیے کاہن کے پاس آئے اور اس سے سوال کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھنے کے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا لی، آپ نے اس سے پوچھا کہ میرے جی میں کیا ہے؟ تو نے اس کہا دُخ ہے (یعنی دُخان، دھواں)۔ تو آپ نے اس سے فرمایا: ’’دفع ہو جا تو اپنی حد سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘( صحيح بخاري ، كتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبى فمات ۔۔۔ حديث: 289۔ صحيح مسلم، كتاب الفتن و اشراط الساعة، باب ذكر ابن صياد، حديث: 2930۔) الغرض کاہن کے پاس آنے والے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں، سوائے اس آکری کے کہ اس کا امتحان لینا چاہے تاکہ لوگوں کو اس کی حقیقت واضح کرے پہلی دو صورتیں ناجائز اور حرام ہیں۔ (محمد بن صالح عثیمین)
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کام حرام اور ناجائز ہے بالخصوص جنوں اور شیطانوں کا کسی انسان کے تابع ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ کوئی ان کی مرضی کا حرام کام نہ کرے مثلا ان کے نام پر ذبح، ان کے نام کی پکار لگانا اور استغاثہ کرنا یا نماز چھوڑ دینا، یا نجاست سے آلودہ رہنا یا نجاست کھانا وغیرہ ہیں جیسے کہ گذشتہ صفحات میں علامہ عبداللہ جبرین حفظہ اللہ کے فتویٰ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ اور یہ سب کفریہ کام ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب