سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) جادو کا حکم

  • 17658
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1332

سوال

(51) جادو کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جادو کا کیا حکم ہے اور اس کا سیکھنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ لغت میں سحر (جادو) سے مراد ہر وہ چیز ہے ’’جس کا سبب انتہائی لطیف اور مخفی ہو۔‘‘ اور پھر اس کی تاثیر بھی بڑی مخفی ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا یا غیب کی خبریں دینے والوں پر اعتماد کرنا بھی سحر کی تعریف میں آ جاتا ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مبالغہ آمیز فصاحت و بلاغت کی تاثیر کو بھی سحر میں شمار فرمایا ہے ان من البيان لسحرا(صحيح البخارى، كتاب النكاح، باب الخطبة، حديث 4851) الغرض ہر وہ چیز جس کا اثر مخفی طریقے سے ہوتا وہ وہ سحر (جادو) میں شمار ہو جاتی ہے۔

البتہ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد ’’وہ بول، دَم جھاڑ اور گرہیں ہیں جن سے لوگوں کے دل و دماغ متاثر اور ماؤف ہو جاتے ہیں، بعض اوقات جسم بھی بیمار ہو جاتے ہیں اور فکر سلیم کی صلاحیت چھن جاتی ہے۔ کہیں محبت بڑھ جاتی ہیں اور کہیں پھوٹ پڑ جاتی ہے حتیٰ کہ میاں بیوی میں تفریق تک ہو جاتی ہے۔‘‘

جادو سیکھنا سکھانا حرام ہے بلکہ کفر کا کام ہے کہ یہ شیطانوں کے ذریعے سے شرک کا دروازہ کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا ہے:

﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ وَما كَفَرَ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هـٰروتَ وَمـٰروتَ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ... ﴿١٠٢﴾... سورة البقرة

’’اور (یہود) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے تو کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ اور بابل میں ہاروت، ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا، وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند بیوی میں جدائی ڈال دیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے، اور وہ یقینا جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘

الغرض اس طرح کی چیزیں سیکھنا سحر اور جادو ہے جس میں شیطانوں کے ذریعے سے اللہ کے ساتھ شرک اور کفر ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ کی مخلوق پر بھی ظلم و زیادتی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جادوگر کو قتل کیا جاتا ہے یا تو اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے یا شرعی حد کی بنا پر۔ اگر اس کا جادو اس حد تک کا ہو کہ اسے کفر تک پہنچا دے تو وہ کفر اور ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے، اور اگر کفر کی حد تک نہ بھی پہنچتا ہو تو شرعی حد کے تحت قتل کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں سے اس کا شروفساد دور ہو۔ (محمد بن صالح عثیمین)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 105

محدث فتویٰ

تبصرے