سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) غصے کی حالت میں دین کو گالی دینا

  • 17656
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1920

سوال

(49) غصے کی حالت میں دین کو گالی دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص غصے کی حالت میں دین کو گالی دے یا برا بھلا کہے ۔۔ تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس پر کوئی کفارہ وغیرہ ہے، اس عمل سے توبہ کی کیا شرط ہے، اور کیا اس سے اس کا نکاح تو نہیں ٹوٹ جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کو گالی بکنا کفر ہے۔ دین کو گالی دینے یا اس کے ساتھ ٹھٹھا مذاق سے انسان مرتد ہو جاتا ہے۔ یہ اللہ اور اس کے دین کے ساتھ کفر ہے۔ اللہ عزوجل نے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ "ہم تو بس ہنسی کھیل میں تھے۔" تو اللہ نے فرمایا کہ ان کا ایسی باتوں میں مشغول ہونا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ٹھٹھا و مذاق کرنے سے یہ کافر ہو چکے ہیں۔ سورۃ التوبہ میں ہے:

﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ...﴿٦٦﴾... سورةالتوبة

’’اگر آپ ان منافقین سے دریافت کریں تو یہ کہیں گے کہ ہم تو بس ہنسی کھیل کر رہے تھے، آپ ان سے کہیے کہ کیا بھلا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ٹھٹھا کرتے ہو، بہانے مت بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔‘‘

الغرض! یہ کام انسان کو ملت اسلام سے نکال دینے والے ہیں، تاہم اگر بندہ ان سے توبہ کرے تو اس کا موقع حاصل ہے۔ فرمایا:

﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚإِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾... سورةالزمر

ان سے کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو جاؤ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے، بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اگر انسان توبہ کرے خواہ کسی طرح کے ارتداد کا مرتکب ہوا ہو اور سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے۔ توبہ کرنے کی پانچ شرطیں ہیں:

1۔ اخلاص: یعنی یہ عمل صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے کرے اس میں کسی ریا اور دکھلاوے کی بات نہ ہو، مخلوق کے ڈر سے نہ کرے، یا کسی دنیاوی لالچ کی بنا پر نہ کرے۔ جب بندے کی توبہ ان جذبات سے ہو تو وہ خاص اللہ کے لیے کہلاتی ہے۔

2۔ ندامت: یعنی جو گناہ سرزد ہوا ہو بندہ اپنی طبیعت میں اس پر ازحد نازم ہو اور جو ہوا ہو اس کو بہت بھاری سمجھے اور جلد از جلد اس کے وبال سے چھٹکارا پانا چاہتا ہو۔

3۔ اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر اصرار نہ کرے۔ اگر وہ کوئی فریضہ چھوڑ بیٹھا تھا تو اسے اپنے عمل میں لے آئے اور تلافی مافات کی کوشش کرے۔ اگر کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہو تو اسے بالکل چھوڑ دے، اگر غلطی کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو ان کا حق ادا کر دے یا حق والے سے معاف کروا لے۔

4۔ یہ عزم کرے کہ آئندہ اس کا اعادہ نہیں کرے گا۔

5۔ یہ توبہ بھی قبولیت کے وقت میں کرے۔ اگر اس موقعہ کے بعد کرے گا تو قبول نہ ہو گی۔ قبولیت توبہ کا موقعہ ضائع ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک عام اور ایک خاص۔

عام یہ ہے کہ جب قیامت قریب آ جائے گی اور سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا تو اس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اور پھر کسی کی توبہ قبول نہ ہو گی، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يَومَ يَأتى بَعضُ ءايـٰتِ رَبِّكَ لا يَنفَعُ نَفسًا إيمـٰنُها لَم تَكُن ءامَنَت مِن قَبلُ أَو كَسَبَت فى إيمـٰنِها خَيرًا ...﴿١٥٨﴾... سورة الانعام

’’جس روز تیرے رب کی کوئی بڑی نشانی آ پہنچے گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا تھا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔‘‘

اور خاص یہ ہے کہ کسی کا وقت آخر آ پہنچے۔ جب کسی کے لیے اس کی موت کی علامات شروع ہو جائیں تو اس وقت توبہ اس کے لیے غیر مفید ہے۔ جیسے کہ اللہ نے فرمایا:

﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٨﴾... سورة النساء

’’ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر ہی پر مر جائیں۔‘‘

انسان جب کسی گناہ سے توبہ کر لے خواہ دین کو گالی ہی دے بیٹھے تو اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے بشرطیکہ مذکورہ بالا شروط پر پوری اترتی ہو اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ بعض اوقات انسان کی زبان سے کوئی کفریہ کلمہ نکل جاتا ہے مگر اس آدمی کو کافر نہیں کہا جاتا، کیونکہ اس میں کوئی ایسا مانع ہوتا ہے جو اس پر کافر ہونے کے حکم سے رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ شخص جس کے متعلق پوچھا گیا ہے کہ اس نے غصے کی حالت میں دین اسلام کو گالی دی ہے تو اگر اس کا غصہ اتنا شدید تھا کہ اسے خبر ہی نہیں تھی کہ کیا کہہ رہا ہے یا اسے معلوم ہی نہ تھا کہ وہ کہاں ہے زمین پر یا آسمان پر، اور جو بولا وہ اسے یاد ہی نہیں تو ایسی حالت گفتگو کا کوئی حکم نہیں ہے اور نہ اس پر مرتد ہونے کا حکم لگ سکتا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ بلا ارادہ ہوا ہے اور جو بات بلا ارادہ اور بلا نیت زبان سے نکل جائے، اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہیں فرماتا۔ جیسے کہ قسموں کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے:

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ...﴿٨٩﴾... سورة المائدة

’’اللہ تعالیٰ تمہاری بے ارادہ لغو قسموں میں تمہارا مؤاخذہ نہیں فرماتا ہے لیکن ان کا مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے بولی ہوں۔‘‘

تو جب انتہائی غضب کی حالت میں اس نے کوئی کفریہ بات کی ہے اور اسے اپنی حالت کا کوئی علم ہی نہیں تو اس کی بات کا کوئی حکم نہیں ہے اور نہ اس پر مرتد ہونے کا حکم لگ سکتا ہے تو اس وجہ سے اس کا نکاح بھی فسخ نہیں ہوا ہے اور وہ عورت اس کے عقد میں علیٰ حالہا باقی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان کو جب اپنے غیظ و غضب کا احساس ہو جائے تو فورا اس کے ازالے کی کوشش کرے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور وصیت معلوم ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے تو آپ نے فرمایا: "غصے نہ ہوا کر۔"( صحيح البخارى، كتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حديث 5765) اس نے بار بار سوال کیا تو آپ نے بھی ہر بار یہی جواب فرمایا کہ "غصے نہ ہوا کر۔" الغرض انسان کو چاہئے کہ اپنی طبیعت پر قابو رکھے اور شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرے۔ اگر اس کیفیت میں کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔ اگر غصہ زیادہ ہی ہو تو وضو کرے، اس طرح سے ان شاءاللہ اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ کتنے ہی لوگوں کے واقعات ہیں کہ شدتِ غضب میں کچھ کر بیٹھتے ہیں کہ بعد میں انہیں اس پر بڑی پشیمانی ہوتی ہے، مگر وقت گزر جانے کے بعد!!

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 102

محدث فتویٰ

تبصرے