السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ جائز ہے کہ انسان کسی عدد اور گنتی کو یا کسی دن یا مہینے وغیرہ کو سعد یا نحس سمجھے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ چیز کسی طرح جائز نہیں ہے بلکہ مشرکین اور اہل جاہلیت کے لوگوں کی عادات میں سے ہے جن کی تردید و ابطال کے لیے دین اسلام آیا ہے۔ شریعت میں ان اعمال کے حرام ہونے کی صراحت آئی ہے، بلکہ یہ شرک ہے اور ان چیزوں کا کسی نفع کے حاصل ہونے یا نقصان سے بچاؤ میں قطعا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے علاوہ کہیں کوئی عطا کرنے والا، روک لینے والا، نفع دینے والا یا نقصان پہنچانے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ ... ﴿١٠٧﴾... سورة يونس
’’اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائے تو اسے دور کرنے والا بھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر ساری امت والے اس بات پر اتفاق کر لیں کہ تجھے کچھ فائدہ دینا ہے، تو وہ سب مل کر تجھے کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے مگر اتنا ہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر وہ سب اس بات پر اتفاق کر لیں کہ تیرا کچھ نقصان کرنا ہے تو وہ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے مگر اتنا ہی جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذى ، كتاب صفة والرقائق والورع، باب صفة اوانى الحوض، باب منه، حديث: 2516. صحيح. مسند احمد بن حنبل: 1/293 حديث: 2669 واسناده قوى.)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(بیماری کا) کوئی متعدی ہونا نہیں، کوئی بدفالی نہیں، کوئی اُلو نہیں[1] اور نہ کوئی صفر ہے‘‘( صحيح البخارى، كتاب لطب، باب لحذام، حديث 5380 صحيح مسلم، كتاب السلام، باب لاعدوى ولا طيرة ... حديث 2220) اور ایک روایت میں ہے "کوئی ستارہ نہیں، کوئی بصوت نہیں۔"( صحيح مسلم، كتاب السلام، باب لاعدوى ولا طيرة ... حديث 2220, 2221)
صاحب شریعت علیہ السلام نے ان سب چیزوں کی نفی کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کا کوئی وجود نہیں، نہ کوئی تاثیر ہے۔ بلکہ یہ دلوں میں آنے والے وہم اور فاسد خیالات ہیں۔ "کوئی صفر نہیں" میں آپ نے واضح فرمایا کہ اہل جاہلیت جو صفر کے مہینہ کو نجس سمجھتے تھے اور یہ کہ اس میں مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں، یہ سب غلط اور باطل ہے۔ آپ نے بتایا کہ یہ بھی دیگر مہینوں کی طرح کا ایک مہینہ ہے۔ کسی نفع کے حاصل ہونے یا دکھ تکلیف کے ٹلنے ٹالنے میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہی حال راتوں اور دنوں کا ہے اور سب گھڑیاں اور ساعتیں ایک سی ہیں۔ اہل جاہلیت بدھ کے دن کو نحس سمجھتے تھے اور ماہ شوال کو برا خیال کرتے تھے بالخصوص اس میں نکاح کرنا بہت بھاری سمجھتے تھے۔ اس بارے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ماہ شوال میں شادی کی تھی، بھلا مجھ سے بڑھ کر بھی کسی کو آپ کے ہاں مقام و مرتبہ ملا ہے؟"( صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب استحباب الترويج والترويج فى الشمال ... حديث 1423. مسند احمد بن حنبل: 6/54 حديث 24317، اسناده صحيح على شرط الشيخين)
ان اعداد اور ایام وغیرہ کو منحوس جاننا ایسی ہی جیسے کہ رافضی لوگ دس کے عدد کو نحس سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں صحابہ رسول میں سے جنت کی بشارت دئیے گئے "عشرہ مبشرہ" سے بغض و عداوت ہے، یہ سراسر ان کی جہالت اور کم عقلی دلیل ہے اور اس مسئلے کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے منہاج السنۃ میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے اور یہ کتاب روافض کی تردید میں بڑی جامع ہے۔
ایسے ہی ستارہ پرست اور نجوم کا خبط رکھنے والے لوگوں نے اوقات کو ساعات سعد اور نحس میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جبکہ دین اسلام میں ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا حرام بتایا گیا ہے اور یہ جادو کی ایک قسم ہے، جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔ الٖرض یہ سب باتیں جاہلیت کی عادات میں سے ہیں جن کی شریعت نے تردید و نفی کی ہے۔
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "تطیر سے مراد کسی چیز کو دیکھ کر یا اس کی آواز سن کر اس سے بدفال لینا ہے۔ اگر کوئی انسان اس سے متاثر ہو کر اپنے کام سے باز آ گیا مثلا سفر سے واپس آ جاتا ہے یا جو کام کرنا چاہ رہا تھا چھوڑ دیا تو اس نے شرک کا دروازہ کھٹکھٹایا بلکہ اس میں داخل ہو گیا اور اللہ پر توکل سے بری ہو گیا، اپنے لیے اس نے غیراللہ سے خوف اور غیراللہ کے ساتھ تعلق کا دروازہ کھول لیا۔ ایسی بدفالی نے اس کو ’’﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾" اور " فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ " اور ﴿ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴿٨٨﴾" کے مقام سے گرا دیا۔ اس کا دل غیراللہ کی عبادت اور غیراللہ پر توکل سے متعلق ہو گیا۔ اس کا دل، ایمان اور حال سب خراب ہوا۔ بدشگونی کے تیروں کا نشانہ بن گیا جو اب ہر طرف سے اس کی طرف بوچھاڑ کرتے رہیں گے۔ ایک شیطان اس کے لیے مقرر ہو گیا جو اس کی دنیا و دین کو اس کے لیے خراب کرتا رہے گا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اس طرح سے دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑے ہیں۔ الغرض بدفالی و بدشگونی کے حرام ہونے کے دلائل معروف اور اپنے اپنے مقامات پر موجود ہیں۔ یہاں ہم مذکورہ بالا کلمات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔‘‘ (ماخوذ از فتویٰ الاذقیہ، طبع 1375ھ) (محمد بن ابراہیم آل الشیخ)
عہد اسلام کو توڑنے اور اسے باطل کرنے والے امور اور یہ دس ہیں
اے مسلمانو! تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام بندوں پر فرض کیا ہے کہ اسلام قبول کریں، اور اسے مضبوطی سے تھامے رہیں اور ہر اس بات سے دور رہیں جو اس کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی غرض سے مبعوث فرمایا ہے کہ بندوں کو اس کے دین کی دعوت دیں۔ اللہ نے بتایا ہے کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی وہ ہی ہدایت یافتہ ہے اور جس نے آپ سے منہ پھیرا وہ گمراہ ہے۔ علمائے امت نے (باب المرتد میں) بہت سے ایسے امور گنوائے ہیں جن سے آدمی کا اسلام و ایمان باطل ہو جاتا ہے، آدمی دین سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہو جاتا ہے۔ ان میں سے دس امور بہت ہی اہم ہیں جنہیں امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور دیگر علماء نے ذکر کیا ہے۔ درج ذیل سطور میں اختصار سے ان کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ آپ اور دوسرے لوگ ان سے محتاط رہیں۔ ان کے آخر میں کچھ توضیحات بھی پیش کی گئی ہیں۔
1۔ ان باطل امور میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت میں شرک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ...﴿١١٦﴾... سورة النساء
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے البتہ اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴿٧٢﴾ ... سورة المائدة
’’بلاشبہ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں (مشرکوں) کا کوئی حمایتی نہیں۔‘‘
اس ضمن میں یہ بھی ہے کہ مردوں کو پکارنا، ان سے مدد حاصل کرنا، ان کے نام کی نذر دینا اور ان کے نام سے ذبح کرنا بھی شرک کے کام ہیں۔
2۔ اگر کوئی اپنے اور اللہ کے درمیان واسطے وسیلے بنائے کہ ان ہی سے دعائیں کرے، ان سے سفارشوں کا سوالی بنے اور ان ہی پر توکل اور اعتماد کرے تو یہ بھی شرک ہے (جس سے بندے کا اسلام و ایمان باطل ہو جاتا ہے)۔
3۔ جو شخص مشرکین کو کافر نہ سمجھے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو صحیح قرار دے، کافر ہے۔
4۔ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ کسی غیر نبی کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بڑھ کر اور کامل ہے یا اس کا حکم و فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے سے بہتر ہے تو ایسا انسان بھی کافر ہے۔ جیسے کہ لوگ اپنے طاغوتوں[2] کے احکام کو اللہ و رسول کے حکم سے بڑھ کر جانتے ہیں۔
5۔ اگر کوئی شخص خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر رہا ہو مگر اسے ناپسندیدہ، مکروہ اور مبغوض سمجھتا ہو تو کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴿٩﴾ ... سورة محمد
’’ یہ اس لیے ہے کہ ان منافقوں نے اللہ کے نازل کیے کو ناپسند اور مکروہ جانا ہے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے ہیں۔‘‘
6۔ اگر کوئی دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی چیز کا مذاق اڑائے یا کسی ثواب یا عذاب کا ٹھٹھا کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥﴾ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ...﴿٦٦﴾... سورة التوبة
’’کہہ دیجیے کہ بھلا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے مذاق کرتے ہو، اب کسی عذر معذرت کی ضرورت نہیں، تم لوگ اپنے ایمان کے بعد کافر ہو چکے ہو۔‘‘
7۔ جادو کرنا کرانا، کسی کی محبت میں گرفتار کرنا کرانا یا ان میں دشمنی اور پھوٹ ڈال دینا بھی اسی میں شامل ہے۔ تو جو یہ کام کرے یا اس سے راضی ہو، کافر ہو جاتا ہے۔ اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر ... ﴿١٠٢﴾... سورة البقرة
’’اور وہ یہ جادو کسی کو نہ سکھاتے تھے حتیٰ کہ اسے بتا دیتے تھے کہ ہم تو آزمائش ہیں، تو کفر مت کر۔‘‘
8۔ مسلمانوں کے برخلاف مشرکوں کی مدد اور ان کا تعاون کرنا، کفر ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥١﴾ ... سورة المائدة
’’اور تم میں سے جو ان یہودونصاریٰ سے دوستی رکھے، تو وہ ان ہی میں سے ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
9۔ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ کچھ لوگوں کا شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکل جانا جائز ہے اور انہیں اس کی پابندی کی ضرورت نہیں تو ایسا آدمی کافر ہو جاتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٨٥﴾ ... سورة آل عمران
’’اور جس کسی نے اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہا، تو اس سے یہ ہرگز قبول نہ ہو گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہو گا۔‘‘
10۔ اللہ کے دین سے بے رخی اختیار کرنا کہ نہ اسے سیکھے اور نہ اس پر عمل کرے تو ایسا آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ ﴿٢٢﴾ ... سورة السجدة
’’اور اس شخص سے بڑھ کر اور کون زیادہ ظالم ہے جسے اس کے رب کی آیات سے نصیحت کی گئی تو وہ ان سے منہ موڑ لے، بلاشبہ ہم مجرموں سے انتقام لیں گے۔‘‘
یہ سب امور جو ذکر ہوئے آدمی کے اسلام و ایمان کو باطل کر دینے والے ہیں، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ ان کا مرتکب مذاق میں یہ کرے یا حقیقت میں یا کسی کے خوف سے۔ ہاں اگر کوئی انتہائی مجبور کر دیا جائے (کہ اسے اپنی جان کا اندیشہ ہو، تو کچھ رعایت ہے)۔ یہ سب باتیں انتہائی خطرناک ہیں اور لوگوں سے اکثر سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ تو ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان سے انتہائی محتاط رہے، اور ان سے ڈرتا رہے۔ ہم اللہ سے پناہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا کام کر بیٹھیں جو اس کی ناراضی کا موجب ہو یا کسی عذاب الیم کا سبب بنے۔
وصلى الله على خير خلقه محمد وعلى آله وصحبه اجمعين
امام رحمۃ اللہ علیہ (امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ) کا کلام مکمل ہوا
مذکوہ بالا میں چوتھی قسم جو بیان ہوئی ہے کہ "اگر کوئی کسی غیر نبی کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بڑھ کر جانے، یا اس کے فیصلے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے بہتر سمجھے تو یہ کفر ہے"، اس میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ لوگوں کے خود ساختہ نظام و قوانین شریعت اسلام سے افضل ہیں، یا اس کے برابر ہیں، یا کوئی یہ سمجھے کہ ان کے تحت فیصلے کرنا کرانا جائز ہے، تو یہ سوچ بھی کفر ہے۔
یا کوئی اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ شریعت الٰہیہ اور نظام اسلام ہے تو افضل مگر اس بیسویں صدی میں اس کی تبطیق و تنفیذ درست نہیں ہے، یا یہ دین ہی مسلمانوں کی پستی اور پسپائی کا سبب ہے، یا یہ سمجھے کہ یہ دین ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے، زندگی کے باقی معاملات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے تو فکروعمل کے یہ سب امور کفر ہیں۔
اس میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھے کہ اللہ کے حکم کی تنفیذ مثلا چور کا ہاتھ کاٹنا یا شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا دور حاضر میں مناسب نہیں ہے۔
یا یہ عقیدہ رکھے کہ معاشرتی معاملات اور حدود وغیرہ میں شریعت الٰہی کے علاوہ دیگر قوانین کے تحت فیصلے کرنا کرانا جائز ہے۔ خواہ اس کا عقیدہ ہو کہ شریعت ہی افضل ہے (یہ کفر ہے)۔ کیونکہ اِس فکروعمل سے اس نے اللہ کے حرام کردہ کو حلال جانا ہے۔ اور ایسے ہی اگر کوئی دین اسلام میں معلوم و معروف حرام چیزوں کو حلال سمجھے مثلا زناکاری، شراب نوشی، سود اور شریعت الٰہیہ کے علاوہ فیصلے کرنا کرانا تو ایسا شخص بالاجماع مسلمین کافر ہے۔
ہماری اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہم سب کو ان اعمال کی توفیق عنایت فرمائے جو اس کی رضا مندی کا باعث ہیں اور ہمیں اور تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے، بلاشبہ وہ سننے والا اور قریب ہے۔
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ "ہامہ" کے ترجمہ میں تفصیل ہے۔ النہایہ ابن اثیر میں ہے کہ "اس کے ایک معنیٰ کھوپڑی کے ہیں اور ایک پرندے کو بھی کہتے ہیں جس سے کہ عرب بدفالی لیتے تھے اور حدیث میں یہی مراد ہے اور سمجھتے تھے یہ رات کو نکلتا ہے۔ کچھ نے اس کا مفہوم "الو" بھی بتایا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ عرب کا خیال تھا کہ اگر کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح ایک پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر وہ پکارتا رہتا ہے، "مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ" اگر بدلہ لے لیا جائے تو وہ اڑ جاتا ہے۔ کچھ نے کہا کہ میت کی ہڈیاں یا اس کی روح پرندہ بن کر اڑتی رہتی ہے جسے کہ صدى کہتے تھے۔ اسلام نے ان سب کی تردید کی ہے۔
[2] طاغوت/ طاغیہ سے مراد وہ بت اور(باطل) معبود ہیں جن کی مشرک لوگ عبادت کرتے ہیں جن کی مشرک لوگ عبادت کرتے ہیں اور شیطان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، اور ہر ایسے شخص پر بھی بولا جاتا ہے جو اپنے کفر اور سرکشی میں حد سے بڑھا ہوا ہو جیسے کہ قوم قبیلے یا ملکوں کے حاکم اور رئیس جو عوام سے اپنی من مانی کرواتے ہیں۔ (النہایہ فی غریب الحدیث)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب