سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) مجازی محبت

  • 17649
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1115

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا غیراللہ سے محبت کرنا جائز ہے؟ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اپنے سکول میں اپنی معلمہ سے بہت متاثر ہوں، میں پرامید ہوں کہ آپ مجھے مایوس نہیں فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر تمہاری استانی ایمان دار خاتون ہے تو تمہیں چاہئے کہ اس کے ساتھ اللہ کے لیے محبت کرو۔ اگر وہ ایمان دار نہیں ہے تو پھر ہرگز اس کے ساتھ محبت نہیں کرنی چاہئے کہ اللہ کے دشمنوں، کفار اور منافقوں کے ساتھ محبت نہیں رکھی جا سکتی۔ محبت و مودت صرف اہل ایمان کا حق ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے:

﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ...﴿١٠﴾... سورةالحجرات

’’مومن ہی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـٰرىٰ أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ...﴿٥١﴾... سورةالمائدة

’’اے ایمان والو! یہودونصاریٰ کو اپنے دوست مت بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘

یعنی تمہیں جائز نہیں ہے کہ ان سے محبت رکھو یا ان کی حمایت کرو یا ان کی مدد کرو یا ان کا دفاع کرو یا ان کی مدح و توصیف کرو۔

﴿بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ﴿٥١﴾... سورةالمائدة

’’وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جس نے ان سے دوستی کی تو پھر وہ انہی میں سے ہوا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔‘‘

یہ سب آیات اس معنیٰ میں ہیں، آگے فرمایا:

﴿إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَالَّذينَ ءامَنُوا الَّذينَ يُقيمونَ الصَّلو‌ٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكو‌ٰةَ وَهُم ر‌ٰكِعونَ ﴿٥٥ وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَالَّذينَ ءامَنوا فَإِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ الغـٰلِبونَ ﴿٥٦﴾... سورة المائدة

’’تمہارا دوست تو بس اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور رکوع (عاجزی) کرنے والے ہیں۔ اور جس نے اللہ سے دوستی کی اور اس کے رسول سے اور ان سے جو ایمان لائے تو بلاشبہ اللہ کا گروہ ہی غالب لوگ ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ يُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِيّاكُم أَن تُؤمِنوا بِاللَّهِ رَبِّكُم إِن كُنتُم خَرَجتُم جِهـٰدًا فى سَبيلى وَابتِغاءَ مَرضاتى تُسِرّونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَأَنا۠ أَعلَمُ بِما أَخفَيتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن يَفعَلهُ مِنكُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ ﴿١﴾... سورةالممتحنة

’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ سمجھو، تم محبت سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو حالانکہ وہ انکاری ہیں اس حق سے جو تمہارے پاس آ چکا ہے، وہ لوگ رسول کو اور تمہیں محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے، ایمان لائے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کے لیے اور میری رضامندی میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیان نہ کرو) تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ محبت کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا۔ تم میں سے جو بھی یہ کام کرے گا وہ یقینا راہ راست سے بہک جائے گا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿هـٰأَنتُم أُولاءِ تُحِبّونَهُم وَلا يُحِبّونَكُم وَتُؤمِنونَ بِالكِتـٰبِ كُلِّهِ وَإِذا لَقوكُم قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ...﴿١١٩﴾... سورةآل عمران

’’ہاں یہ تم ہی ہو جو ان (منافقین) کو چاہتے ہو، وہ تو تم سے کوئی محبت نہیں رکھتے، تم پوری کتاب کو مانتے ہو (وہ نہیں مانتے تو پھر محبت کیسی؟) یہ تمہارے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصے کے انگلیاں چباتے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخو‌ٰنَهُم أَو عَشيرَتَهُم ...﴿٢٢﴾... سورة المجادلة

’’آپ کسی قوم کو نہیں پائیں گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ ان لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے آباء ہوں یا بیٹے یا بھائی یا خویش قبیلے والے۔‘‘

تو ایک صاحب ایمان پر فرض ہے کہ اللہ کے اولیاء اور اس سے محبت کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھے اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھے۔ اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لئے غصہ اور ناراضی کا یہی مفہوم ہے اور یہ ایمان کا مضبوط ترین کنڈا ہے، دین اور عقیدے کا بنیادی اصول ہے اور لا الٰہ الا اللہ کا لازمی تقاضا ہے اور اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے:

﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبر‌ٰهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَء‌ٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَد‌ٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ ...﴿٤﴾... سورةالممتحنة

’’بلاشبہ تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ اور اچھی پیروی ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، جب تک تم ایک اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ، ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَما كانَ استِغفارُ إِبر‌ٰهيمَ لِأَبيهِ إِلّا عَن مَوعِدَةٍ وَعَدَها إِيّاهُ فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنهُ إِنَّ إِبر‌ٰهيمَ لَأَوّ‌ٰهٌ حَليمٌ ﴿١١٤﴾... سورةالتوبة

’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا صرف اس وعدے کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کر لیا تھا، پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق اور بری ہو گئے، بلاشبہ ابراہیم رحم دل اور حلیم الطبع تھے۔‘‘

تو جیسے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شرک سے بری اور بیزار رہے اسی طرح اس پر یہ بھی لازم ہے کہ مشرکین، کفار اور ملحدین سے بری اور بیزار رہے اور صرف اہل ایمان اور اہل اطاعت سے محبت رکھے اگرچہ وہ نسب اور وطن کے لحاظ سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں اور کفار سے دشمنی رکھے خواہ وہ نسب اور وطن کے لحاظ سے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں۔ اور یہی حقیقت ہے الولاء والابراء کی۔ یعنی اللہ کے لیے اہل ایمان سے دوستی اور اللہ کے لیے کفار و مشرکین سے براءت و بیزاری۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 88

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ