سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) توحید اور اس کی اقسام

  • 17646
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 18401

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 توحید سے کیا مراد ہے اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لغوی طور پر یہ لفظ وحد، يوحد کا مصدر ہے۔ یعنی کسی چیز کو ایک اکیلا اور منفرد بنا دینا۔ اور ایمانیات میں اللہ تعالیٰ کو ان تمام امور میں جو اس سے خاص ہیں، ایک اکیلا جاننا توحید کہلاتا ہے۔ اور یہ بات نفی اور اثبات کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ یعنی ذات واحد کے علاوہ سے حکم کی نفی کرنا اور پھر اسی ایک ذات کے لیے ثابت کرنا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی شخص کی توحید اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی جب تک شہادت لا اله الا الله کا اقرار و اظہار نہ کرے، تو ضروری ہے کہ وہ اللہ عزوجل کے علاوہ سب معبودوں کی الوہیت کا انکار بھی کرے اور صرف اس ایک کے معبود ہونے کا اقرار کرے۔ خیال رہے کہ نفی و اثبات کے مسئلہ میں کسی چیز کی صرف نفی کر دینا اس کی تعطیل اور عدم کو مستلزم ہے، اسی طرح اگر صرف اثبات کیا جائے تو اس میں دوسرے کے اشتراک کا انکار نہیں ہوتا ہے۔ مثلا: اگر آپ یوں کہیں کہ "فلاں کھڑا ہے" اس جملے میں آپ اس شخص کے لیے قیام ثابت کر رہے ہیں مگر اس میں اس کے اکیلے اور منفرد ہونے کا اظہار نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی کھڑا ہوا ہو۔ اور اگر آپ یوں کہیں کہ "نہیں کھڑا ہے" اس میں آپ نے نفی عام اور انکار عام سے کسی کے لیے بھی کھڑا ہونے کا اثبات نہیں کیا۔ مگر جب آپ یوں کہیں کہ "زید کے علاوہ اور کوئی کھڑا نہیں ہوا ہے" تو اس میں آپ نے اکیلے زید کے لیے کھڑا ہونا ثابت کیا اور اس کے علاوہ باقی سب کی نفی کر دی۔ تو توحید کی حقیقت بھی اسی طرح سے ہے کہ جب تک اس میں نفی اور اثبات نہ ہو، توحید کامل نہیں ہو سکتی۔ اور اس کی مذکورہ بالا عمومی تعریف کہ "اللہ تعالیٰ کو ان تمام امور میں جو اس سے خاص ہیں ایک اکیلا جاننا توحید ہے۔" اس میں اس کی سب انواع شامل ہو جاتی ہیں۔

توحید کی انواع کے بارے میں سب سے بہترین قول وہی ہے جو علماء نے بیان کیا ہے کہ اس کی تین انواع ہیں: (1) ۔۔ توحید ربوبیت۔ (2) ۔۔ توحید الوہیت۔ (3) ۔۔ توحید الاسماء والصفات

اور یہ قول آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں غوروفکر اور تدبر سے حاصل ہوا ہے۔

اول توحید ربوبیت:۔۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کے پیدا کرنے، اس کا مالک ہونے اور اس کا انتظام چلانے میں اکیلا اور منفرد جانا جائے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پیدا کرنے میں اکیلا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی خالق نہیں، اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:

﴿هَل مِن خـٰلِقٍ غَيرُ اللَّهِ يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ... ﴿٣﴾... سورة الفاطر

’’کیا بھلا اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان سے رزق دے سکے؟ اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں۔‘‘

کفار کے دیگر الٰہوں کی تردید میں فرمایا:

﴿أَفَمَن يَخلُقُ كَمَن لا يَخلُقُ أَفَلا تَذَكَّرونَ ﴿١٧﴾...سورة النحل

’’کیا بھلا جو پیدا کرتا ہے ان کی طرح ہو سکتا ہے جو پیدا نہیں کر سکتے، کیا سمجھتے نہیں ہو؟‘‘

الغرض! اللہ تعالیٰ اکیلا ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق ان تمام مخلوقات کو شامل ہے اور ان امور کو بھی شامل ہے جو ان مخلوقات سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے خالق واحد ہونے پر ایمان تبھی کامل ہوتا ہے جب انسان یہ ایمان رکھے کہ ان مخلوقات کے افعال کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿وَاللَّهُ خَلَقَكُم وَما تَعمَلونَ ﴿٩٦﴾... سورة الصف

’’اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم کرتے ہو۔‘‘

اس کی وضاحت یوں سمجھئے کہ بندے کا فعل بندے کی صفت ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور چیز کا پیدا کرنے والا اس چیز کی صفات کا بھی خالق ہوتا ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ بندے کا فعل بندے کے اپنے ارادے اور اپنی صلاحیت سے ہوتا ہے اور بندے کا ارادہ اور اس کی سب صلاحیات اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور کسی چیز کا خالق کامل وہی ہو سکتا ہے جو اس کے سبب کا بھی خالق ہو۔

ایک اعتراض: اگر یہ کہا جائے کہ خلق کی صفت اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی ذکر کی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ کا خالق مطلق اور خالق واحد ہونا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

﴿فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحسَنُ الخـٰلِقينَ ﴿١٤﴾... سورة المؤمنون

’’بڑی برکت والا ہے اللہ جو پیدا کرنے والوں میں سب سے بہترین ہے۔‘‘

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی دوسروں کے لیے صفت خلق بیان کی گئی ہے، مثلا: تصویریں بنانے والوں کو عذاب کے سلسلے میں کہا جائے گا: أحيوا ما خلقتم (صحيح البخارى، كتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدكم آمين والملائكة فى السماء، حديث: 3224۔ صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة، باب تحريم تصوير صورة الحيوان، حديث 2108۔) (زندہ کرو اس کو جو تم نے پیدا کیا) (بنایا)۔

جواب: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی کسی چیز کو اس طرح سے نہیں بنا سکتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ بناتا اور پیدا کرتا ہے۔ کسی غیراللہ کے لیے ممکن نہیں کہ کسی معدوم کو وجود میں لا سکے یا کسی مردے کو زندہ کر سکے۔ غیراللہ کی خلق صرف اسی قدر ہے کہ وہ اس کی شکل کو بدل دے، یا ایک حالت سے دوسری حالت میں لے آئے۔ اور یہ بھی اللہ عزوجل کی خلق اور تقدیر کا ایک حصہ ہے۔ مثلا: کوئی مصور (تصویر بنانے والا) ناممکن ہے کہ عدم سے کوئی چیز وجود میں لے آئے مگر وہ صرف اسی قدر کر سکتا ہے کہ مٹی سے کسی پرندے یا اونٹ بوغیرہ کی شکل بنا دے، یا سفید کاغذ کو رنگین کر دے۔ تو یہ مٹی، کاغذ اور رنگ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یہی فرق ہے اللہ تعالیٰ اور غیراللہ کو خالق کہنے کا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلق و پیدائش میں اکیلا اور منفرد ہے اور یہ اسی کا خاصہ ہے۔[1]

دوم:۔۔ اللہ عزوجل کا ملک و ملکیت میں اکیلا اور منفرد ہونا، تو وہ اکیلا ہی مالک ہے جیسے کہ فرمایا:

﴿تَبـٰرَكَ الَّذى بِيَدِهِ المُلكُ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿١﴾... سورة الملك

’’برکت والی وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہے ملک اور وہ ہر ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل مَن بِيَدِهِ مَلَكوتُ كُلِّ شَىءٍ وَهُوَ يُجيرُ وَلا يُجارُ عَلَيهِ...﴿٨٨﴾... سورةالمؤمنون

’’ان سے پوچھیے کہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر ہر چیز کا اختیار ہے، جو پناہ دیتا ہے اس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔‘‘

اس کائنات کا اکیلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی حقیقی مالک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کی طرف جو ملک و ملکیت کی نسبت کی جاتی ہے وہ محض اضافی (مجازی اور لفظی) ہے۔ جیسے کہ خود اللہ عزوجل نے یہ نسبت دی ہے:

﴿أَو ما مَلَكتُم مَفاتِحَهُ...﴿٦١﴾... سورة النور

’’یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو (بلا اجازت کھا سکتے ہو)۔‘‘

یا فرمایا:

﴿إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم... ﴿٦﴾... سورة المؤمنون

’’جو (اپنی عصمتوں کی حفاظت کرتے ہیں) ۔۔ سوائے اپنی بیویوں سے یا ملکیت کی لونڈیوں سے۔‘‘

اس طرح کی بے شمار آیات میں مخلوق کے لیے ملکیت اور ان کے مالک ہونے کا بیان آیا ہے۔ مگر مخلوق کی ملکیت اور مالکیت اس انداز کی قطعا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ مخلوق کی ملکیت ناقص اور محدود ہے۔ چنانچہ وہ گھر جو زید کی ملکیت میں ہے عمرو اس کا مالک نہیں ہے، اور جو گھر عمرو کا ہے زید اس کا مالک نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی ملکیت محدود و مقید ہوتی ہے اور انسان اپنی زیر ملکیت میں اتنا ہی تصرف اور عمل دخل رکھتا ہے جتنا کہ اللہ نے اسے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو (اگرچہ انسان اس کا مالک ہوتا ہے) ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے:

﴿وَلا تُؤتُوا السُّفَهاءَ أَمو‌ٰلَكُمُ الَّتى جَعَلَ اللَّهُ لَكُم قِيـٰمًا ...﴿٥﴾... سورةالنساء

’’اور اپنے مال بے عقلوں کو مت دے دیا کرو جسے کہ اللہ نے تمہاری گزران قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘

یہ دلیل ہے کہ انسان کی ملکیت ناقص اور محدود ہے، بخلاف اللہ عزوجل کی ملکیت کے، کہ اس کی ملکیت کامل، شامل اور عام ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور جو کرے اس سے اس کے متعلق پوچھا نہیں جا سکتا جبکہ مخلوق سے پوچھا جاتا ہے۔

سوم:۔۔ تدبیر و انتظام کائنات میں بھی اللہ تعالیٰ اکیلا اور منفرد ہے۔ وہی اس زمین و آسمان کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

﴿أَلا لَهُ الخَلقُ وَالأَمرُ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ العـٰلَمينَ ﴿٥٤﴾... سورة الاعراف

’’خبردار! اسی کی ہے خلقت اور اسی کا ہے حکم، برکت والی ہے ذات اللہ کی جو پالنے والا ہے تمام جہان والوں کا۔‘‘

اللہ عزوجل کا یہ انتظام اور اس کی تدبیر ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہے کہ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا اور نہ کوئی اس کی مخالفت کر سکتا ہے۔ مخلوقات کو جو کسی قدر کچھ انتظام و تدبیر حاصل ہے جیسے کہ انسان اپنے اموال اور خدام وغیرہ میں کرتا ہے تو یہ انتظام و تدبیر انتہائی ناقص، محدود اور کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے۔ ان تفصیلات سے واضح ہوا کہ ’’توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خلق، ملک اور تدبیر و انتظام میں ایک اکیلا جاننا چاہئے۔‘‘

قسم دوم، توحید الوہیت:۔۔ یہ ہے کہ ’’ایک اکیلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عبادت کا مستحق سمجھا جائے‘‘ یعنی انسان اس کے ساتھ کسی اور کی کوئی عبادت نہ کرے اور نہ اس کا تقرب چاہے جیسے کہ اللہ عزوجل کی عبادت کی جاتی ہے یا اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔

توحید کی یہی وہ قسم ہے جس میں مشرکین گمراہ تھے، اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا تھا اور ان کے خون، مال اور علاقے حلال جانے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔ انبیاء علیہم السلام کو یہی دعوت دے کر بھیجا گیا اور کتابیں نازل کی گئیں، اگرچہ توحید ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات بھی اس کے ساتھ ہیں مگر انبیاء کا اپنی قوموں کے ساتھ بڑا نزاع اسی توحید الوہیت میں رہا ہے۔ یعنی انسان عبادت کی غرض سے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو، نہ کسی مقرب فرشتے کی طرف، نہ کسی نبی اور رسول کی طرف، نہ کسی ولی اور صالح کی طرف اور نہ کسی اور مخلوق کی طرف۔ کیونکہ عبادت صرف اور صرف ایک اللہ عزوجل کا حق ہے۔ جس بندے کی اس توحید میں کوئی خلل یا فرق ہوا وہ مشرک اور کافر ہے خواہ توحید ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات کا کتنا ہی اقرار کیوں نہ ہو۔

اگر کسی شخص کا ایمان ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے، وہی خالق ہے، وہی مالک ہے، وہی اس تمام کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، اور وہی ان اسماء و صفات کا مستحق ہے جو اس کی شان کو لائق ہیں مگر وہ کسی اور کی عبادت بھی کرتا ہو تو اس کا یہ اقرار ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات اسے کوئی فائدہ نہ دے گا۔

مثلا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات کا کامل اقرار کرتا ہو مگر ساتھ ہی کسی قبر پر جا کر صاحب قبر کی عبادت بھی کرتا ہو یا اس کے لیے قربت کی کوئی نذر بھی جانتا ہو تو ایسا شخص مشرک ہے، کافر ہے اور ابدی جہنمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ وَما لِلظّـٰلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿٧٢﴾... سورةالمائدة

’’تحقیق جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اللہ نے اس کے لیے جنت کو حرام قرار دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں (مشرکوں) کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘

اور ہر وہ شخص جس نے قرآن مجید کا بغور مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ مشرک جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں کیں، ان کے خون اور مال حلال جانے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا اور ان کی زمینوں پر قبضے کیے یہ سب لوگ اس بات کے اقراری تھے کہ ایک اللہ ہی رب ہے، خالق ہے، انہیں اس میں کوئی شک نہ تھا لیکن چونکہ وہ اس کے ساتھ غیراللہ کی عبادت بھی کرتے تھے تو اس طرح وہ مشرک بنے اور ان کے خون اور مال حلال جانے گئے۔

قسم سوم، توحید الاسماء والصفات:۔۔ یعنی وہ مبارک اسماء اور صفات عالیہ جو اللہ عزوجل نے اپنے متعلق قرآن کریم میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے احادیث میں بیان ہوئی ہیں، وہ اللہ عزوجل کا خاصہ ہیں اور وہ ان میں اکیلا اور منفرد ہے۔ ان اسماء و صفات کا اثبات اس طرح سے ہے کہ بغیر کوئی کیفیت بیان کیے ذکر کی جائیں، ان میں نہ کوئی تحریف ہو نہ تعطیل اور نہ تمثیل۔

ضروری ہے کہ بندہ ان تمام اسمائے مبارکہ پر ایمان رکھے جن سے اس اللہ نے اپنے آپ کو موسوم اور موصوف ٹھہرایا ہے، اور یہ اسماء و صفات سب حقیقت ہیں ان میں کوئی استعارہ و مجاز نہیں، لیکن ہم ان کی کوئی کیفیت یا مثال بیان نہیں کر سکتے۔

توحید کی یہ قسم ایسی ہے کہ اس میں بہت سے مسلمان باوجودیکہ وہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے ہیں مختلف انداز میں گمراہ ہوئے ہیں۔

بعض نے ان اسماء و صفات کی نفی کی اور اللہ کی تنزیہ میں اس قدر غلو کیا ہے کہ اسلام ہی سے نکل گئے ہیں، بعض متوسط رہتے ہیں اور بعض اہل سنۃ کے قریب ہیں۔ اس بارے میں صحابہ کرام اور سلف کا طریقہ یہ رہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان تمام اسماء اور صفات سے موسوم و موصوف گردانا جائے جو اس نے اپنے متعلق بیان فرمائے ہیں اور وہ سب حقیقت ہیں۔ ان کے بیان میں نہ کوئی تحریف ہو (کہ ان کا مفہوم بدل جائے) نہ تعطیل (کہ ان کے مفہوم کا انکار کر دیا جائے) نہ کوئی کیفیت بیان ہو اور نہ کوئی مثال۔

مثلا اللہ عزوجل نے اپنے آپ کو ’’حی و قیوم‘‘ بتایا ہے (یعنی زندہ، قائم اور قائم رکھنے والا)، تو ہم پر واجب ہے کہ ہم ایمان رکھیں کہ ’’ الحى ‘‘ اسی کا ایک نام ہے اور واجب ہے کہ اس نام کے معنیٰ میں جو زندگی کا مفہوم ہے اس پر بھی ایمان رکھیں۔ اس طرح کہ اس کی زندگی انتہائی کامل اور اکمل ہے اس پر بھی کوئی عدم نہیں آیا اور نہ آئندہ کوئی فنا آئے گی۔

اس نے اپنا ایک نام ’’ السميع ‘‘ بتایا ہے (یعنی سننے والا)۔ ہم پر واجب ہے کہ ہمارا ایمان ہو کہ ’’ السميع ‘‘ اس کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے اور سننا اس کی صفت عالیہ ہے، جو اس نام سے ماخوذ اور مفہوم ہے۔ اگر کوئی یوں کہے کہ وہ سمیع تو ہے مگر سنتا نہیں، یا نعوذباللہ سنتا ہے مگر سمجھتا نہیں تو یہ بات محال ہے۔ اسی طرح سے باقی اسماء و صفات ہیں۔

ایک اور مثال:۔۔ قرآن مجید میں ہے

﴿وَقالَتِ اليَهودُ يَدُ اللَّهِ مَغلولَةٌ غُلَّت أَيديهِم وَلُعِنوا بِما قالوا بَل يَداهُ مَبسوطَتانِ يُنفِقُ كَيفَ يَشاءُ ...﴿٦٤﴾... سورة المائدة

’’یہودیوں نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، بندھ جائیں ان کے ہاتھ، اور ان پر لعنت ہے بسبب اس کے جو انہوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔‘‘

یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے دو ہاتھ ہونے کا ذکر فرمایا اور یہ کہ وہ دونوں عطا و انعام کے ساتھ کھلے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنے دلوں میں ایسا کوئی تصور نہ لائیں یا اپنی زبانوں سے ان کی کوئی کیفیت یا مثال بیان نہ کریں کہ اس کے ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں جیسے ہیں، کیونکہ اس نے اپنے متعلق خود فرمایا ہے

﴿ لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ ﴿١١﴾...سورة الشورىٰ

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَو‌ٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطـٰنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٣﴾... سورة الاعراف

’’کہہ دیجیے کہ میرے رب نے بے حیائی کی باتیں حرام کی ہیں جو کھلی ہوں یا پوشیدہ اور (حرام کیا ہے) گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ شریک بناؤ اللہ کا ایسی چیز کو کہ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری، اور یہ کہ لگاو اس کے ذمہ وہ باتیں جو تم کو معلوم نہیں ہیں۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤادَ كُلُّ أُولـٰئِكَ كانَ عَنهُ مَسـٔولًا ﴿٣٦﴾... سورة الإسراء

’’اور اس بات کے پیچھے مت لگو جس کا تمہیں علم نہیں۔ بلاشبہ کان، آنکھیں اور دل سب سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘

تو اگر کوئی شخص اللہ عزوجل کے ان ہاتھوں کو مخلوق کے ہاتھوں کے ساتھ تشبیہ اور مثال دے تو اس نے اللہ کے اس فرمان لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ کی تکذیب کی اور اللہ کے فرمان فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّـهِ الْأَمْثَالَ ۚ (انحل: 16/74) ’’اللہ کی مثالیں نہ بیان کرو‘‘ کے خلاف کیا اور اگر کوئی ان کی کیفیت بیان کرے خواہ کوئی سی ہو تو اس نے الدہر ایسی بات کہنے کی جراءت کی جس کا اسے علم نہیں اور اس چیز کے درپے ہوا جس سے وہ آگاہ نہیں ہے۔‘‘

ایک اور مثال:۔۔ اللہ عزوجل کا اپنے عرش پر مستوی ہونا۔ یہ وہ صفت ہے جس کا قرآن مجید میں سات مقامات پر ذکر آیا ہے اور اس میں " اسْتَوَىٰ" اور " عَلَى الْعَرْشِ " کے واضح الفاظ بیان ہوئے ہیں اور جب ہم عربی زبان میں غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ "استویٰ" کا لفظ "علیٰ" کے ساتھ استعمال ہو تو اس کا ترجمہ ارتفاع اور بلندی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تو آیت کریمہ ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴿٥﴾ (طٰہٰ: 20/5) وغیرہ کا ترجمہ یہ ہوا کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بلند ہوا‘‘ جیسے کہ اس کی ذات والا صفات کو لائق ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے، اس میں انسان کے کسی تخت پر بلند ہونے یا کسی چوپائے کی پشت پر بلند ہونے یا کشتی وغیرہ پر سوار ہونے کے ساتھ کسی طرح کوئی مماثلت نہیں ہے۔ جیسے کہ قرآن کریم میں انسانوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے:

﴿وَالَّذى خَلَقَ الأَزو‌ٰجَ كُلَّها وَجَعَلَ لَكُم مِنَ الفُلكِ وَالأَنعـٰمِ ما تَركَبونَ ﴿١٢ لِتَستَوۥا عَلىٰ ظُهورِهِ ثُمَّ تَذكُروا نِعمَةَ رَبِّكُم إِذَا استَوَيتُم عَلَيهِ وَتَقولوا سُبحـٰنَ الَّذى سَخَّرَ لَنا هـٰذا وَما كُنّا لَهُ مُقرِنينَ ﴿١٣ وَإِنّا إِلىٰ رَبِّنا لَمُنقَلِبونَ ﴿١٤﴾... سورة الزخرف

’’اور تمہارے لیے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم ان کی پشت پر جم کر بیٹھو اور پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے وہ جس نے اس کو ہمارے بس میں کر دیا اور ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو قابو کر سکتے اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘

(ان آیات میں بھی انسانوں کے لیے استواء کا لفظ استعمال ہوا ہے) تو مخلوقات کا استواء ناممکن ہے کہ اللہ عزوجل کے استواء علی العرش کی مانند ہو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کی طرح کوئی چیز نہیں ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ

اور بہت بڑی غلطی ہے ان لوگوں کی جو اس کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ "اللہ اپنے عرش پر مسلط اور غالب ہوا۔" یہ بات اللہ کے کلمات کو اپنے مقام سے پھیرنے کی بات ہو گی جسے تحریف کہتے ہیں۔ یہ مفہوم صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے تابعین بالاحسان کے اجماع کے سراسر خلاف ہے اور بہت غلط معانی کو مستلزم ہے۔ کسی صاحب ایمان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ عزوجل کے متعلق ایسی نامناسب بات اپنی زبان پر لائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے:

﴿إِنّا جَعَلنـٰهُ قُرء‌ٰنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُم تَعقِلونَ ﴿٣﴾... سورة الزخرف

’’ہم نے اس کو عربی کا قرآن کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔‘‘

تو " اسْتَوَىٰ عَلَى " کے معنیٰ عربی زبان میں بلند ہونا اور قرار پکڑنا ہیں۔ تو جب اللہ عزوجل کے لیے یہ صفت آئی ہے تو اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ "وہ عرش پر بلند ہوا، اس خاص انداز میں بلند ہونا جو اس کی عظمت و جلال کو لائق ہے۔" اگر کوئی "استویٰ" کے معنیٰ "استولیٰ" (غالب ہونا) کرتا ہے تو اس نے ان کلمات میں تحریف کی اور لغات قرآن کی نفی کا مرتکب ہوا اور غلط اور باطل معنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

علاوہ ازیں سلف صالحین (صحابہ کرام) اور ان کے تابعین عظام کا بھی انہی معانی پر اجماع ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی کوئی لفظ اس تفسیر کے خلاف نہیں آیا ہے۔ جب قرآن و حدیث کے الفاظ کی تفسیر میں سلف سے کوئی لفظ ظاہر کے خلاف نہ آئے تو یہ دلیل ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے اس کے ظاہر ہی پر محمول کیا ہے اور وہ اس کے ظاہر ہی کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ آیا سلف میں سے کسی سے " اسْتَوَىٰ عَلَى " کی تفسیر صراحت کے ساتھ بھی منقول ہے تو اس کا جواب ہے کہ ہاں سلف سے یہ منقول اور ثابت ہے۔ اور اگر بالفرض ان سے بصراحت منقول نہ بھی ہو تو اصل قاعدہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے الفاظ سے وہ ظاہری معانی ہی مراد لیے جاتے ہیں جو عربی زبان میں مستعمل ہوں اور سلف بھی یہی مراد لیتے ہیں۔

استواء کے معنیٰ غلبہ اور تسلط لیے جائیں تو اس کے لازمی غلط نتائج:

1۔ اگر استواء کے معنیٰ (بلند ہونے اور قرار پکڑنے کے علاوہ) استیلاء یعنی غلبہ اور تسلط لیے جائیں تو اس کا لازمی مفہوم یہ ہو گا کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے عرش اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں نہ تھا، کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے:

﴿نَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ...﴿٥٤﴾... سورةالاعراف

’’بلاشبہ تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

اگر اس کا ترجمہ غالب ہونا کیا جائے تو یہ مفہوم نکلے گا کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے یا جب انہیں پیدا کیا گیا اللہ تعالیٰ عرش پر غالب اور مسلط نہ تھا۔

2۔ اگر اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ کا معنی استولي على العرش ہوں تو یہ کہنا بھی صحیح کہنا پڑے گا کہ 'استولي على الارض' یا ' استولي على اى شئى ' یعنی اللہ زمین پر یا کسی اور شے پر غالب اور مسلط ہوا۔ یقینا یہ بات اللہ عزوجل کے بارے میں سوچنا یا کہنا برابر غلط ہے۔

3۔ اس معنیٰ سے تحریف لازم آتی ہے کہ ان کے صحیح اور حقیقی شرعی معنیٰ کی بجائے دوسرے غلط معنیٰ نکالے گئے۔

4۔ اور یہ معنیٰ سلف صالحین کے اجماع کے خلاف ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ توحید الاسماء والصفات میں ہم پر واجب ہے کہ ہم اس پر اس بات کا اثبات کریں جس کا اللہ عزوجل نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں اثبات کیا ہے اور اس سے اس کے حقیقی معانی مراد لیں (جیسے کہ اللہ عزوجل کی والا شان کے لائق ہیں) ان میں کوئی تحریف، کوئی تعطیل نہ کریں اور نہ کوئی کیفیت یا تمثیل بیان کریں۔


[1] مترجم: مخلوق کی طرف نسبت محض لفظی اور مجازی ہے۔ جیسے کہ صاحب تفسیر احسن البیان علامہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ تبارک اللہ احسن الخالقین کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: "یہاں خالقين ان صانعین کے معنی میں ہے جو خاص خاص مقداروں میں اشیاء کو جوڑ کر کوئی چیز تیار کر لیتے ہیں، یعنی ان صنعت گروں میں اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے؟ پس سب سے زیادہ خیروبرکت والا وہ اللہ ہی ہے جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 68

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ