السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا انسان کا رزق اور شادی بیاہ وغیرہ کے امور بھی لوح محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں، اللہ عزوجل نے قلم کو پیدا کرنے کے بعد اول سے لے کر قیامت تک ہونے والی ہر ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اس سے کہا کہ: لکھ! قلم نے کہا: اے میرے رب! کیا لکھوں؟ فرمایا: وہ سب کچھ لکھ جو ہونے والا ہے۔( سنن ترمذى، كتاب القدر، باب الرضا بالقضاء، حديص 2155 قال البانى صحيح. المستدرك للحاكم: 2/540 حديث: 3840) چنانچہ قلم فورا چل پڑا اور قیامت تک ہونے والی سب چیزیں لکھ ڈالیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ جب چاہ ماہ کا ہو جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا اور اس کا رزق، اس کی زندگی (یا موت)، اس کا عمل اور یہ کہ یہ بدبخت ہو گا یا نیک بخت ہونا لکھ دیتا ہے۔( صحيح بخارى، كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، حديث: 3208. صحيح مسلم، كتاب القدر، باب كيفية الخلق الأدمى فى بطن امه ... حديث: ٢٦٤٣)
بندے کا رزق بھی لکھا جا چکا ہے اور اسباب کے ساتھ مقدور ہے، اس میں نہ کوئی کمی ہو سکتی ہے نہ اضافہ۔ اور ان اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ انسان حصول رزق کے لیے کسب اور کوشش کرے۔
جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿هُوَ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ ذَلولًا فَامشوا فى مَناكِبِها وَكُلوا مِن رِزقِهِ وَإِلَيهِ النُّشورُ ﴿١٥﴾... سورة الملك
’’اللہ وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے پست اور مطیع کر دیا ہے تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزی کھاؤ پیو، اور اسی کی طرف تمہیں جی کر اٹھ کھڑے ہونا ہے۔‘‘
رزق کا ایک شرعی سبب صلہ رحمی بھی ہے کہ بندہ بالخصوص اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ اپنائے رہے۔ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا رزق وسیع ہو اور اس کو یاد رکھا جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا رہے۔‘‘( صحيح البخاري ، كتاب البيوع، باب من احب السبط فى الرزق، حديث ١٩٦١. صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم و تحريم قطيعتها، حديث 2557) اور ایک اہم سبب اللہ عزوجل کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ فرمایا:
﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ...﴿٣﴾... سورةالطلاق
’’اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے کھلنے کی راہ پیدا کر دے گا اور اسے وہاں سے رزق پہنچائے گا جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی ہو گا۔‘‘
یہ خیال مت کیجیے کہ رزق تو لکھا ہوا اور مقرر ہے، اس لیے مجھے اس کے لیے ذرائع اور اسباب اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوچ درماندگی اور عجز ہے۔ دانائی اور عقلمندی یہ ہے کہ اپنے رزق کے لیے بھرپور کوشش کیجئے بلکہ ان سب امور کے لیے جو آپ کے دین و دنیا میں آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور عاجز ہے وہ بندہ جس نے اپنے نفس کو اپنی خواہش کے پیچھے لگایا اور اللہ پر امیدیں باندھے رہا۔؟‘‘( المستدرك للحاكم: 280/4 حديث 7639)
جس طرح رزق لکھا جا چکا ہے اور اسباب کے ساتھ مقدر ہے یہی بات زواج اور شادی بیاہ کی بھی ہے، یہ لکھا جا چکا ہے کہ فلاں جوڑے میں فلاں شوہر اور فلاں بیوی ہو گی۔ [1]اور اللہ تبارک و تعالیٰ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔
[1] مترجم: جیسے کہ ہمارے عرف میں زبان زد عام ہے کہ ’’جوڑے آسمان پر بنتے ہیں‘‘ حق اور سچ بات ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب