السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسباب کا سہارا لینا کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسباب کا سہارا لینا کئی طرح سے ہے:
پہلی قسم:۔۔ یہ ہے کہ انسان کوئی سبب اختیار کرے مگر صرف ظاہری طور پر سبب کی حیثیت سے اپنے عمل میں لائے مگر حقیقی اور اصلی اعتماد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر ہو اور اس کا یقین یہی ہو کہ یہ سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر اللہ چاہے تو اس سبب کو بھی کاٹ سکتا ہے، اور اگر چاہے تو اسے باقی رہنے دے، اور اللہ تعالیٰ کی مشیت میں اس سبب کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس انداز سے سبب اختیار کرنا نہ اصل توحید کے خلاف ہے نہ کمال توحید کے منافی۔
دوسری قسم:۔۔ سراسر توحید کے خلاف ہے۔ وہ یہ کہ انسان کوئی سبب اختیار کرے اور پھر ہر اعتبار سے اس ہی پر تکیہ کر لے، اسی کی تاثیر کا یقین رکھے اور اللہ عزوجل کو بھول جائے کہ اس کی بھی کوئی تقدیر ہے۔ مثلا: جیسے کہ ہمارے ہاں قبر پرست ہیں کہ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کسی صاحب قبر کی طرف بھاگتے ہیں، یہ شرک اکبر ہے، ملت اسلام سے نکالنے کا باعث ہے، اور اس کا حکم وہی ہے جو اللہ عزوجل نے بیان فرمایا ہے:
﴿إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ وَما لِلظّـٰلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿٧٢﴾... سورة المائدة
’’بلاشبہ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘
یہ دنیا دارالاسباب ہے، اس میں بے انتہا صحیح اور مشروع اسباب موجود ہیں، اور بندہ انہیں اختیار بھی کرتا ہے، تو چاہئے کہ انسان کسی طرح بھی اپنے دل کو ان اسباب کے ساتھ نہ اٹکائے، بلکہ ہر طرح سے اللہ عزوجل پر اعتماد ہونا چاہئے۔ چنانچہ اگر کوئی ملازم اپنے روزی رزق اور معاملات میں سراسر اپنی تنخواہ پر اعتماد کرتا ہے اور مسبب الاسباب اللہ عزوجل کو بھول جاتا ہے تو یہ شرک کی ایک صورت ہے۔ لیکن اگر اس کا خیال اس طرح ہو کہ تنخواہ تو محض ایک خالی خولی ظاہری سہارا اور سبب ہے اصل معاملہ فی الحقیقت اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے تو یہ بات توحید یا توکل کے قطعا خلاف نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسباب اختیار فرمایا کرتے تھے مگر آپ کا کلی اعتماد مسبب الاسباب اللہ عزوجل ہی پر ہوا کرتا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب