سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) دجال کب تک رہے گا؟

  • 17634
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1481

سوال

(27) دجال کب تک رہے گا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 دجال اس دنیا میں کتنا عرصہ رہے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا اس دنیا میں رہنا صرف چالیس دن کے لیے ہو گا، مگر ( اس مدت میں سے) ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک مہینے کے برابر، اور ایک دن ایک ہفتے کے برابر اور بقیہ ایام ہمارے دنوں کی طرح ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی فرمایا ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ وہ ان جو سال کے برابر ہو گا کیا ہمیں اس میں ایک ہی دن کی نمازیں کافی ہوں گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تمہیں اس کے لیے اندازہ لگانا ہو گا۔ اس میں ہمارے لیے بہت بڑا درس ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس طرح ان امور کی بلا چون و چرا تصدیق کی۔ کسی قسم کے انکار، تحریف یا تاویل کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ انہوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی کہ یہ دن کس طرح لمبا ہو جائے گا جبکہ یہ اپنے مدار میں اپنے معروف انداز میں طلوع و غروب ہوتا ہے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ یا یہ مفہوم نہیں لیا کہ یہ دن اپنی مشقت اور ہولناکی کی وجہ سے اس قدر لمبا محسوس ہو گا جیسے کہ ایک سال ہو۔ صحابہ کرام نے ہمارے دور کے نام نہاد مفکرین کی سی کوئی بات نہیں کی، بلکہ انہوں نے بغیر کسی تحریف یا تاویل کے تسلیم کیا کہ یہ دن حقیقت میں بارہ ہی ماہ کا ہو گا اور مومن کی شان بھی یہی ہے کہ غیبی امور میں جو بات اللہ اور اس کے رسول نے بتائی ہوتی ہے اسے تسلیم و قبول کرتا ہے اگرچہ عقل اسے کتنا ہی محال جانے۔ لیکن ضروری ہے کہ آپ یقین کریں کہ اللہ اور اس کے رسول کی خبر کسی طرح عقلی طور پر محال نہیں ہو سکتی۔ یہ ضرور ہے کہ عقل کا دائرہ چونکہ محدود اور مختصر ہے اور حقائق کا کامل طور پر ادراک نہیں کر سکتی تو ان محیر العقول امور کا انکار کر دیتی ہے۔

مختصرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس دجال کا پہلا دن ایک سال کا ہو گا۔ جب یہ حدیث رسول ان بعد میں آنے والوں کے سامنے آتی ہیں جو مدعی ہیں کہ ہم بڑے عقل مند ہیں تو کہتے ہیں کہ اس دن کی لمبائی مجازی ہے اس لیے کہ اس میں بے انتہا اذیت اور مشقت ہو گی تو اسے ایک سال کے برابر کہہ دیا گیا ہے کیونکہ فرحت و شادمانی کے دن بڑے مختصر اور دکھ اور تکلیف کے دن بڑے لمبے محسوس ہوتے ہیں۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طبعی صفا اور ایمان میں تسلیم و رضا کی بنا پر فورا یہ بات قبول کر لی (کوئی انکار پیش نہیں کیا) اور زبان حال سے کہا کہ بلاشبہ وہ ذات باری تعالیٰ جو سورج کی ایک گردش کو ایک دن رات میں چوبیس گھنٹے میں پورا کرتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اس کی گردش کو بارہ ماہ تک کے لیے لمبا کر دے کیونکہ خالق عزوجل وہی ہے جو ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے لہذا انہیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ بلکہ فوری طور پر ایک ضروری سوال پوچھ لیا کہ ہم اس دن میں نمازیں کیسے پڑھیں گے؟ کیا ہمیں اس دن میں ایک دن رات کی نمازیں کافی رہیں گی؟ آپ نے فرمایا کہ "نہیں، بلکہ ان کے لیے تم اندازہ کرتے رہنا۔"

اگر آپ اس سوال و جواب پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمارا یہ دین کس قدر مکمل دین ہے کہ لوگوں کو اپنے دین کی جس کسی بات کی قیامت تک کے لیے ضرورت ہو سکتی ہے وہ اس کے اندر موجود ہے۔ اللہ عزوجل نے اصحاب رسول سے کس قدر عظیم اور اہم سوال کروایا جس سے اس دین کا کامل ہونا ثابت ہوا اور یہ کہ یہ اب کسی اور جانب سے تکمیل کا محتاج نہیں ہے۔

اس مسئلے کی اب ان آخری دنوں میں قطب شمالی اور قطب جنوبی میں ضرورت پڑی ہے کہ ان اطراف میں دن رات چھ چھ ماہ کے ہوتے ہیں، تو ان مقامات پر یہ حدیث مبارک ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشکل کے درپیش آنے سے پہلے ہی اس کا جواب دے دیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى... ﴿٣﴾... سورة المائدة

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے۔‘‘

اگر ہم اس کلمہ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ پر غور کریں تو واضح ہو گا کہ دین میں کہیں کوئی چیز ناقص نہیں ہے، یہ ہر اعتبار سے کامل ہے۔ کمی اور قصور اگر ہے تو ہم میں ہے، یا ہمارے فہم و بصیرت میں ہے یا ہماری خواہشات میں ہے کہ انسان اپنی بات پر اڑا رہتا اور حق سے اندھا اور بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ ہم اللہ سے ہر طرح کی عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ اگر ہم علم صحیح، فہم سلیم اور حسن نیت سے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ دین کسی تکمیل کا محتاج نہیں ہے، اور ناممکن ہے کہ اس کا کوئی مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا حل کتاب و سنت کے اندر موجود نہ ہو۔ مگر جب ہوا و ہوس کی کثرت ہو گئی اور ذہنوں پر یہ چیز غالب آ گئی تو کچھ کے لیے حق اندھا ہو گیا اور ان کے لیے واضح نہ ہوا۔ جب کوئی نئی بات ان کے سامنے آتی ہے تو ان لوگوں کے اقوال میں بہت اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن اگر نیت نیک اور فہم سلیم اور علم بھی وسیع ہو تو حق مخفی نہیں رہتا ہے۔

مختصر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ دجال اس دنیا میں چالیس دن رہے گا۔ اس کے بعد سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے، جن کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہوا ہے، اور ان کے اترنے کا بیان صحیح احادیث میں آیا ہے کہ وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر اتریں گے، اس حال میں کہ اپنے ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے، آپ جب سر جھکائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے گریں گے اور جب اوپر اٹھائیں گے تو اس سے موتی سے گریں گے۔ کسی کافر کے لیے ممکن نہ ہو گا کہ ان کی خوشبو پائے اور زندہ رہے۔ یعنی مر جائے گا۔ یہ اللہ کی خاص نشانیاں ہیں۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور بالآخر فلسطین میں باب لد کے پاس اسے قتل کر دیں گے اور اس کا کام تمام ہو جائے گا۔

جناب عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کے سوائے اسلام کے اور کچھ قبول نہ کریں گے، جزیہ نہیں لیں گے، صلیب توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو قتل کر دیں گے اور پھر ایک اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ ہو گی۔ اس میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ کفار سے جزیہ لینا ایک اسلامی ضابطہ ہے مگر اس کی ایک مدت ہے یعنی نزول عیسیٰ علیہ السلام تک۔ اس کے بعد نہیں لیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حکم عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے ہو گا، بلکہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے جانے کی بنا پر اس کا نفاذ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں کئی انداز کی ہیں قولی، فعلی اور تقریری (یعنی توثیق)۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ خبر دی اور اس کی توثٰق فرمائی ہے تو حقیقت میں یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوئی جس پر عمل عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہو گا۔ ورنہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئیں گے، بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت قیامت تک کے لیے ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 57

محدث فتویٰ

تبصرے