سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) شفاعت کی اقسام اور شرائط

  • 17622
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4719

سوال

(15) شفاعت کی اقسام اور شرائط

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شفاعت سے کیا مراد ہے اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ شفاعت عربی زبان میں شَفَع سے ماخوذ ہے (یعنی کسی چیز کو جفت اور جوڑا بنانا) اور اس کے مقابلے میں وِتر آتا ہے (بمعنی طاق اور اکیلا بنانا)، کسی وتر کو شفع بنانا (یعنی طاق کو جفت کر دینا) یوں ہے مثؒا: ایک کو دو، یا تین کو چار کر دینا۔ یہ اس کی اصل لغوی بنا ہے۔

اور اصطلاحا اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی نفع اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے یا کوئی دکھ تکلیف دور کرنے کے لیے کسی کا واسطہ حاصل کرنا (جسے اردو میں سفارش کہتے ہیں) یعنی شفاعت کرنے والا (سفارشی) ضرورت مند اور صاحب اختیار کے درمیان واسطہ ہوتا ہے تاکہ ضرورت مند کو کوئی فائدہ مل جائے یا اس کی کوئی تکلیف دور ہو جائے (اور وہ ایک سے دو بن جاتے ہیں)

شفاعت کی دو انواع ہیں:

ایک جو کتاب و سنت سے صحیح طور پر ثابت ہے، اور صرف اہل توحید اور اہل اخلاص کے لیے خاص ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون خوش نصیب ہوں گے جو آپ کی سفارش سے بہرہ ور ہوں گے؟ فرمایا: ’’جس نے اپنے خالص دل سے لا الہ الا اللہ کہا ہو گا۔‘‘ (صحيح بخارى، كتاب العلم، باب الحرص على الحديث، حديث 99۔ مسند احمد بن حنبل: 373/2)

اس شفاعت کی تین شرطیں ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ سفارش کرنے والے سے راضی ہو۔

2۔ اللہ تعالیٰ سفارش کیے جانے والے سے راضی ہو۔

3۔ اللہ تعالیٰ سفارش کرنے والے کو اجازت دے کہ وہ سفارش کر سکے۔

ان شرطوں کا بالاجمال بیان اس آیت کریمہ میں موجود ہے:

﴿وَكَم مِن مَلَكٍ فِى السَّمـٰو‌ٰتِ لا تُغنى شَفـٰعَتُهُم شَيـًٔا إِلّا مِن بَعدِ أَن يَأذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشاءُ وَيَرضىٰ ﴿٢٦﴾... سورة النجم

’’اور کتنے ہی فرشتے ہیں آسمانوں میں کہ ان کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دے سکتی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے۔‘‘

اور تفصیلی طور پر درج ذیل آیتوں میں بیان ہوئی ہیں:

﴿ مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ...﴿٢٥٥﴾... سورة البقرة

’’کون ہے جو اس کے ہاں سفارش کر سکے، مگر اس کی اجازت سے۔‘‘

﴿يَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفـٰعَةُ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمـٰنُ وَرَضِىَ لَهُ قَولًا ﴿١٠٩﴾... سورة طه

"اس دن سفارش کچھ کام نہ آئے گی مگر جس کے لیے رحمٰن  اجازت دے اور اس کی بات کو پسند بھی فرمائے۔" اور

﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ﴾

’’اور وہ فرشتے کسی کی سفارش نہیں کرتے سوائے ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔‘‘

الغرض! ان شرطوں کے بغیر شفاعت یا سفارش نہیں ہو سکے گی۔

اس کے علاوہ علمائے اسلام نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس سفارش کی دو قسمیں ہیں:

اول:۔۔۔ عام سفارش یعنی اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں میں سے جسے بھی چاہے گا اجازت دے گا کہ مخصوص بندوں کے لیے جن کے لیے وہ اجازت دے گا سفارش کریں اور یہ سفارش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کریں گے اور یہ ان گناہ گار اہل ایمان کے لیے ہو گی جو جہنم میں پڑے ہوں گے۔

دوم:۔۔۔ خاص سفارش اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور بہت بڑی سفارش وہ ہو گی جب محشر والے دن لوگ ناقابل برداشت گھبراہٹ اور پریشانی میں ہوں گے اور چاہیں گے کہ انہیں اس ابتلاء سے چھٹکارا ملے تو وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی سفارشی تلاش کریں گے۔ چنانچہ وہ پہلے آدم پھر نوح، پھر ابراہیم، پھر موسیٰ اور پھر عیسیٰ علیہم السلام کے پاس باری باری جائیں گے اور یہ سبھی اس سے معذرت کریں گے حتیٰ کہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آ جائے گی تو آپ تشریف لائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ اس مخلوق کو اس مقام سے چھٹکارا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا اور سفارش قبول فرما لے گا۔ (صحيح بخارى، كتاب التفسير، باب سورة بنى اسرائيل، حديث: 4718۔) اور یہی وہ ’’مقام محمود‘‘ ہے جس کا اللہ نے آپ سے وعدہ فرمایا ہوا ہے:

﴿وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ عَسىٰ أَن يَبعَثَكَ رَبُّكَ مَقامًا مَحمودًا ﴿٧٩﴾... سورة الإسراء

’’اور رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کیا کریں، یہ آپ کے لیے نفل ہے، عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔‘‘

اور آپ علیہ السلام کی خاص سفارشوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اہل جنت کے لیے جنت میں داخل کیے جانے کی سفارش فرمائیں گے، جبکہ یہ لوگ پل صراط عبور کر چکے ہوں گے، تو ان کو جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، یہاں ان کے دلوں کو خوب صاف کیا جائے گا (کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے متعلق کوئی غصہ ناراضی تک باقی نہ رہے گا) تو جب وہ اچھی طرح صاف ستھرے ہو جائیں گے تب انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت ملے گی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے اس کے دروازے کھلیں گے۔

شفاعت حقہ جس کا اوپر بیان ہو چکا اس کے مقابلے میں ایک شفاعت باطلہ بھی ہے جس کے مشرکین مدعی ہیں کہ ان کے خد ان کے لیے سفارش کریں گے۔ اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ اللہ نے فرمایا:

﴿فَما تَنفَعُهُم شَفـٰعَةُ الشّـٰفِعينَ ﴿٤٨﴾... سورة المدثر

’’انہیں سفارش کرنے والوں کو سفارش کوئی فائدہ نہ دے گی۔‘‘

بلکہ ان کے لیے کوئی سفارش ہو گی ہی نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے شرک سے کسی طرح راضی نہیں ہے اور نہ اسے ان کے کفر کا کوئی عمل پسند ہے۔ تو مشرکین کا اپنے معبودوں سے چمٹنا اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ

﴿ هـٰؤُلاءِ شُفَعـٰؤُنا عِندَ اللَّهِ...﴿١٨﴾... سورة يونس

’’کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘

محض عبث اور باطل ہے اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس عمل سے وہ اللہ تعالیٰ سے اور دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کی انہائی حماقت ہے کہ ایک باطل کے ذریعے سے اور طریقے سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ سوائے بعد اور دوری کے اور کچھ نہیں۔     

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 47

محدث فتویٰ

تبصرے