السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حساب کا ایک ہی دن ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حساب کا دن ایک ہی ہے مگر اس کی لمبائی پچاس ہزار سال کے برابر ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِعٍ ﴿١﴾ لِلكـٰفِرينَ لَيسَ لَهُ دافِعٌ ﴿٢﴾ مِنَ اللَّهِ ذِى المَعارِجِ ﴿٣﴾ تَعرُجُ المَلـٰئِكَةُ وَالرّوحُ إِلَيهِ فى يَومٍ كانَ مِقدارُهُ خَمسينَ أَلفَ سَنَةٍ ﴿٤﴾... سورة المعارج
’’ایک طلب کرنے والے نے اس عذاب کی خواہش کی جو ہونے والا ہے کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں، اس اللہ کی طرف سے جو بلندیوں والا ہے، جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو بھی کوئی سونے والا ہوا یا چاندی والا، وہ اگر اس کا حق ادا نہ کرتا رہا تو جب قیامت کا دن ہو گا اس کے لیے اس کے سونے چاندی کو آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا، انہیں جہنم کی آگ سے دہکایا جائے گا اور پھر ان سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ کو داغا جائے گا ۔۔ اور یہ ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتیٰ کہ بندوں میں فیصلہ ہو۔" (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة، حديث: 987 و سنن ابي داؤد، كتاب الزكاة، باب فى حقوق المال، حديث:1658)
اور یہ دن کافروں کے لیے انتہائی مشکل اور سخت ہو گا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ وَكانَ يَومًا عَلَى الكـٰفِرينَ عَسيرًا ﴿٢٦﴾... سورة الفرقان
"یہ دن کافروں کے لیے انتہائی مشکل ہو گا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿فَذٰلِكَ يَومَئِذٍ يَومٌ عَسيرٌ ﴿٩﴾ عَلَى الكـٰفِرينَ غَيرُ يَسيرٍ ﴿١٠﴾... سورة المدثر
’’یہ دن بڑا ہی سخت ہے۔ کافروں کے لیے کسی طرح بھی آسان نہیں ہے۔‘‘
ان آیات کا لازمی مفہوم یہ ہوا کہ یہ دن اہل ایمان کے لیے انتہائی آسانی والا ہو گا باوجودیکہ اس انتہائی لمبے دن کے معاملات بے انتہا دہشت ناک اور ہولناک ہوں گے لیکن اہل ایمان کے لیے اس میں آسانی ہو گی اور اہل کفر کے لیے انتہائی ہولناکی۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے مسلمان بھائیوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دے، آمین!
ضروری ملاحظہ: ۔۔ خیال رہے کہ اس قسم کے غیبی امور میں بہت زیادہ گہرائی تک جانا صحیح نہیں ہے۔ اس انداز کو "تنطع" کہا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ہلاک ہوئے تنطع کرنے والے، ہلاک ہوئے تنطع کرنے والے، ہلاک ہوئے تنطع کرنے والے (یعنی بال کی کھال اتارنے والے، مسائل میں بہت زیادہ گہرائی میں جانے والے)۔‘‘ (صحيح مسلم، كتاب العلم، باب هلك المنتطعون، حديث: 2670۔ سنن ابى داؤد، كتاب السنة، باب فى لزوم السنة، حديث: 6408)
مسلمان کا یہی فریضہ ہے کہ اس قسم کے غیبی امور میں ظاہری معانی اختیار کرے اور تسلیم و رضا کا اظہار کرے۔ بہت زیادہ گہرائی میں جانا اور عالم آخرت کے امور کو اس دنیا کے معاملات پر قیاس کرنا قطعا صحیح نہیں ہے کیونکہ آخرت کے امور دنیا کے جیسے نہیں ہیں۔ صرف لفظی تشبیہ ہے اور حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ مثلا: جنت میں کھجوریں ہیں، انار ہیں اور ہر طرح طرح کے پھل ہیں، پرندوں کے گوشت، شہد، پانی، دودھ اور شراب وغیرہ بہت کچھ ہے مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿فَلا تَعلَمُ نَفسٌ ما أُخفِىَ لَهُم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ جَزاءً بِما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٧﴾... سورة السجدة
’’کسی جان کو خبر نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپایا گیا ہے، بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے رہے۔‘‘
اور ایک حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں، کسی کان نے سنا نہیں بلکہ کسی دل میں ان کی خوبی کا تصور تک نہیں آیا۔ (صحيح بخارى، كتاب بدء الخلق، باب ما جاء فى صفة الجنة وانها مخلوقة، حديث: 3072 صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها، حديث: 2724) غرض یہ کہ ان چیزوں کے نام محض دنیا والے مگر حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہی قاعدہ ہے نکہ غیبی امور میں ظاہری معنیٰ کو تسلیم کرے اور اس سے آگے بڑھ کر زیادہ گہرائی میں نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴿٥﴾ (طہ: 20/5) کی تفسیر پوچھی گئی کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہوا؟ تو امام رحمۃ اللہ علیہ کا سر جھک گیا، جسم پر پسینہ آ گیا بلکہ بہنے لگا اور یہ کیفیت اس سوال کی عظمت کی وجہ سے تھی۔ پھر انہوں نے سر اٹھایا اور اپنی وہ مشہور بات کہی جو اس قسم کی الٰہی صفات کے بارے میں کسوٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے فرمایا: "لفظ استواء کے لفظی معنیٰ معلوم و معروف ہیں، اس کی کیفیت ہماری عقل و سمجھ سے بالا ہے، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘
الغرض! اس قسم کے مسائل میں بہت زیادہ گہرائی میں جانا بدعت ہے۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حصولِ علم اور طلبِ خیر میں ہم سے بہت بڑھ کر تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے سوال نہیں کئے اور یہ لوگ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیل میں یوم آخرت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے یہی قاعدہ اور اصول اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ہے جو اس نے اپنے بارے میں بیان فرمائی ہیں۔ مثلا: علم، قدرت، سمع، بصر اور کلام وغیرہ۔ ان صفات کا اللہ کے لیے استعمال ویسے ہی ہے جیسے اس کی ذات والا شان کو لائق ہے انسان یا مخلوق کی صفات کے ساتھ ان کی قطعا کوئی مشابہت نہیں ہے صرف الفاظ کی حد تک مشابہت ہے۔ صفات ہمیشہ اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی مثیل نہیں ہے اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی اس کا مثیل نہیں ہے۔
خلاصۃ الجواب یہ ہے کہ آخرت کا دن ایک ہی ہے جو کافروں کے لیے انتہائی مشکل اور بھاری ہے مگر اہل ایمان کے لیے ازحد آسان اور ہلکا ہے اور اس میں بیان کیے گئے ثواب و عقاب کی حقیقت کو اس دنیا میں نہیں جانا جا سکتا اگرچہ ان الفاظ کے معانی ہمیں اس دنیا میں معلوم ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب