سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) اسلام اور ایمان میں فرق

  • 17610
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2955

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام کی کیا تعریف ہے اور ایمان و اسلام میں کیا فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام اپنے عمومی معنیٰ میں یہ ہے کہ "اللہ تعالیٰ کی عبدات، جو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے مشروع فرمائی ہیں، سرنجام دینا" اسلام ہے۔ چنانچہ وہ ہدایت اور حق جو سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کے بعد سیدنا موسیٰ، عیسیٰ اور امام الحنفاء ابراہیم علیہم السلام (اور پھر محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم) لائے، سبھی اللہ کا دین اسلام ہے جیسے کہ بےشمار آیات قرانیہ میں ان کا ذکر آیا ہے۔ اور اپنے خاص معنیٰ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، وہ حق و ہدایت قبول کرنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں، اسلام ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے سابقہ تمام ادیان منسوخ ہو چکے ہیں۔ تو جو آپ کا مطیع فرمان ہوا مسلمان ہے اور جس نے آپ کی نافرمانی اور مخالفت کی وہ غیر مسلم ہے۔ کیونکہ ایسے آدمی نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے سرتسلیم خم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی خواہش نفس کے تابع ہوا ہے۔ بالفرض یہودی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور میں، نصاریٰ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں مسلمان تھے، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب انہوں نے ان کا انکار کر دیا تو مسلمان نہ رہے۔ اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ یہ عقیدہ رکھے کہ یہودونصاریٰ آج جس دین کے پیرو ہیں وہ صحیح دین (یا دین اسلام) ہے، یا اللہ کے ہاں مقبول و پسندیدہ ہے یا ان کا دین، اسلام کے برابر ہے۔ بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر اور دین اسلام سے خارج ہے۔

کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ ... ﴿١٩﴾... سورة آل عمران

’’اللہ کے ہاں (مطلوب و پسندیدہ) دین ’’اسلام‘‘ ہی ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ ...﴿٨٥﴾... سورة آل عمران

’’جس نے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرنا چاہا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘

ان آیات میں جس "اسلام" کا ذکر کیا گیا ہے، یہ وہ خاص اسلام ہے، جس کا اللہ عزوجل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت پر احسان فرمایا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا ...﴿٣﴾... سورة المائدة

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کیا ہے۔‘‘

یہ صریح نص ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد اس امت کے علاوہ اور کوئی امت اسلام پر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ جو بھی کوئی دین اللہ عزوجل کو پیش کریں گے تو وہ قبول نہیں ہو گا اور نہ قیامت کے دن انہیں اس کا کوئی فائدہ ہو گا۔ اور ہمارے لیے بھی حلال نہیں کہ ان کے دین کو صحیح و مستقیم دین سمجھیں۔ لہذا جو لوگ یہودونصاریٰ کو اپنے بھائی قرار دیتے ہیں یا ان کے دین کو بھی درست سمجھتے ہیں بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔

جب ہم نے یہ کہا کہ "اسلام اللہ تعالیٰ کی مشروع کی ہوئی عبادات بجا لانے کا نام ہے" تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ آدمی ظاہری اور باطنی طور پر اسی کا مطیع فرمان ہو اور اسی کے لیے سرتسلیم خم کرے اور یہ تعریف دین کی تمام جوانب عقیدہ، قول اور عمل سب کو محیط ہے۔

لیکن اگر اسلام اور ایمان کو اکٹھے ذکر کیا جائے تو اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہوتے ہیں، یعنی زبان سے بولنا اور اعضاء سے عمل کرنا اور ایمان سے مراد باطنی اور اعمال قلوب، جسے ہم عقیدہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس فرق پر یہ آیت کریمہ دلیل ہے:

﴿ قالَتِ الأَعرابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـٰكِن قولوا أَسلَمنا وَلَمّا يَدخُلِ الإيمـٰنُ فى قُلوبِكُم ...﴿١٤﴾... سورة الحجرات

’’دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم نے تسلیم کر لیا اور مطیع ہو گئے ہیں اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘

سیدنا لوط علیہ السلام کے قصہ میں ہے:

﴿فَأَخرَجنا مَن كانَ فيها مِنَ المُؤمِنينَ ﴿٣٥ فَما وَجَدنا فيها غَيرَ بَيتٍ مِنَ المُسلِمينَ ﴿٣٦﴾... سورة الذاريات

’’ہم نے ان کی بستی میں سے اہل ایمان کو نکال لیا اور ہم نے اس میں ایک گھر کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔‘‘

یہاں اہل ایمان اور اہل اسلام میں فرق کیا گیا ہے۔ اس بستی میں ظاہری طور پر مسلمان گھرانہ صرف ایک ہی تھا، اور اس میں لوط علیہ السلام کی بییو بھی تھی جس نے کفر کر کے آپ کی خیانت کی تھی جبکہ درحقیقت یہ کافرہ تھی۔ مگر جنہیں نکالا گیا اور انہوں نے نجات پائی وہ خالص مومن تھے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل ہو چکا تھا۔

علاوہ ازیں مذکورہ بالا فرق کی دلیل کے، ایک دلیل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی معروف روایت ’’حدیث جبریل‘‘ بھی ہے۔ اس میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام اور ایمان کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اسے اسلام کی تعریف میں ظاہری اعمال بیان فرمائے:

الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله ، وتقيم الصلاة ، وتؤتي الزكاة ، وتصوم رمضان ، وتحج البيت

اور ایمان کے متعلق باطنی امور بیان فرمائے یعنی

"أن تؤمن باللَّه وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر؛ وتؤمن بالقدر خيره وشره" (صحيح البخاري، كتاب الايمان، باب سؤال جبريل النبي ..، حديث: 50 و صحيح مسلم: كتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام، حديث: 1)

الغرض! جب عمومی طور پر "اسلام" کا ذکر ہوتا ہے تو یہ پورے دین کو محیط اور شامل ہوتا ہے، جس میں ایمان بھی لازما شمار ہے۔ مگر جب ایمان کے ساتھ ملا کر استعمال ہو تو اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں، یعنی زبان سے بولنا اور اعضاء سے عمل کرنا اور ایمان سے مراد اعمال قلوب اور باطنی امور ہوتے ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 32

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ