سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) ایمان میں کمی و زیادتی

  • 17609
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2873

سوال

(02) ایمان میں کمی و زیادتی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایمان کی کیا تعریف ہے، اور کیا اس میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل السنۃ والجماعہ کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ ’’(توحید و رسالت کا) دل سے اقرار، زبان سے اظہار اور اعضاء سے عمل ہو"۔ چنانچہ اس میں یہ تین باتیں ہونا ضروری ہیں:

(1) دل سے اقرار کرنا (2) زبان سے بولنا (3) اعضاء سے عمل کرنا۔

اس طرح اس میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ دل کے اقرار کے مختلف درجات ہوتے ہیں، مثلا ایک بات سن کے تسلیم کرنا، دیکھ کر ماننے کے برابر نہیں ہوتا۔ یا ایک آدمی کی خبر پر اس قدر اعتماد نہیں ہوتا جتنا کہ دو آدمیوں کی خبر پر ہوتا وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جب کہا گیا کہ ﴿أَوَلَمْ تُؤْمِن ﴾’’کیا ایمان نہیں رکھتے ہو؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ﴿بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ﴾(البقرۃ: 2/260) ’’کیوں نہیں، لیکن دل کا اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آدمی کا ایمان دلی قرار و اطمینان کی حیثیت سے کم زیادہ ہوتا ہے اور ایک عام انسان کو بھی اس کا احساس اور تجربہ ہوتا ہے، مثلا: جب وہ کسی ایسی مجلس میں ہو جس میں اللہ سے ڈرایا جائے، جنت دوزخ کا ذکر ہو تو انسان کا ایمان بڑھ جاتا ہے گویا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اور جب وہ ایسی مجلس سے اٹھ آتا ہے اور اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے تو اس کے دل کا یہ یقین بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔

زبان کے نطق سے بھی ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ مثلا جو شخص دس بار اللہ کا ذکر کرے وہ اس کے مانند نہیں ہو سکتا جو سو بار ذکر کرتا ہے، یقینا دوسرا پہلے سے بڑھ کر ہے۔

اور اسی طرح جو شخص انتہائی اخلاص سے اور کامل طور پر عبادت کرتا ہے، اس کا ایمان اس آدمی سے بڑھ کر ہے جو ناقص انداز میں پیش کرتا ہے۔ اور اعضاء و جوارح سے کیے جانے والے عمل میں جس قدر کثرت ہو گی اس سے آدمی کا ایمان بھی ہو گا بہ بشت اس کے جو اس میں کمی کرے گا۔ اور قرآن و سنت میں ایمان کی کمی بیشی کا بیان بہت زیادہ ہے۔ مثلا فرمایا:

﴿وَما جَعَلنا أَصحـٰبَ النّارِ إِلّا مَلـٰئِكَةً وَما جَعَلنا عِدَّتَهُم إِلّا فِتنَةً لِلَّذينَ كَفَروا لِيَستَيقِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ وَيَزدادَ الَّذينَ ءامَنوا إيمـٰنًا ...﴿٣١﴾... سورة المدثر

’’اور ہم نے (جہنم کے داروغوں) کی تعداد تو کافروں کی آزمائش ہی کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کر لیں اور ایمان دار ایمان میں بڑھ جائیں۔‘‘

﴿وَإِذا ما أُنزِلَت سورَةٌ فَمِنهُم مَن يَقولُ أَيُّكُم زادَتهُ هـٰذِهِ إيمـٰنًا فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـٰنًا وَهُم يَستَبشِرونَ ﴿١٢٤ وَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَتهُم رِجسًا إِلىٰ رِجسِهِم وَماتوا وَهُم كـٰفِرونَ ﴿١٢٥﴾... سورة التوبة

’’اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ سو جو لوگ ایمان دار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان میں (فی الواقع) ترقی دی ہوتی ہے اور وہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی (سابقہ) گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی ہے اور وہ حالت کفر ہی میں مر گئے۔‘‘

اور صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں آیا ہے (جو آپ نے ایک بار خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا) کہ "میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر کسی کم عقل اور ناقص دین کو نہیں پایا جو ایک اچھے بھلے سمجھ دار آدمی کی عقل کو کھو دینے والی ہو۔‘‘ (صحيح بخاري، كتاب الحيض، باب ترك الحائض الصوم، ح: 298 و صحيح ابن خزيمة: 54/13، ح: 5744)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کے عقل اوردین میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے۔

ایمان میں زیادتی اور ترقی کے کئی اسباب ہیں:

سبب اول:۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت حاصل کرنا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے جس قدر زیادہ آگاہ ہو گا، اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کی جسے زیادہ معرفت ہو گی، وہ یقینا ایمان میں بھی بڑھ کر ہو گا اور آپ جانتے ہیں کہ اہل علم حضرات عام لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے بہت زیادہ آگاہ ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے اس درجہ کے نہیں ہوتے اس لیے وہ قوی الایمان بھی ہوتے ہیں۔

سبب دوم:۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نظامِ کائنات (نظام قدرت، آیات کونیہ) اور احکام شریعت (آیات شرعیہ) میں غوروفکر کرتے رہنا۔

انسان اس کائنات کے نظام اور اللہ کی قدرت اور اس کی مخلوقات میں جس قدر غوروفکر کرے گا اس کا ایمان بڑھتا چلا جائے گا۔ جیسے کہ فرمایا گیا ہے:

﴿وَفِى الأَرضِ ءايـٰتٌ لِلموقِنينَ ﴿٢٠ وَفى أَنفُسِكُم أَفَلا تُبصِرونَ ﴿٢١﴾... سورة الذاريات

’’اور اس زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں اور کیا بھلا تم اپنی جانوں میں نہیں دیکھتے ہو؟‘‘

اور اس معنی کی بہت سی آیات ہیں کہ اس کائنات میں تدبر کرنے سے انسان کا ایمان بڑھتا ہے، اس میں ترقی ہوتی ہے اور اضافہ ہوتا ہے۔

سبب سوم:۔۔۔ اللہ کی اطاعت کے کام بہت زیادہ کرنا۔ انسان کی اطاعت گزاری کے اعمال جس قدر بڑھتے جائیں گے اس کے ایمان میں اضافہ اور ترقی بڑھتے جائیں گے اس کے ایمان میں اضافہ اور ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ یہ اطاعت خواہ زبانی ہوں یا فعلی۔ زبان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے سے ایمان کی کیفیت اور اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی حال نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات کا ہے۔

ایمان میں کمی کے اسباب (مذکورہ بالا کے برعکس ہیں) :

سبب اول:۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا سے جاہل ہونا، کمی ایمان کا باعث ہے۔ انسان اپنے اللہ کے متعلق جس قدر زیادہ لاعلم ہو گا، اسے اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفات کی آگاہی نہیں ہو گی، اس قدر اس کا ایمان کم اور کمزور ہو گا۔

سبب دوم:۔۔۔ اس کائنات اور اللہ کے نظام قدرت میں غوروفکر نہ کرنا اور احکام شریعت میں تدبر نہ کرنا کمی ایمان کا باعث ہے۔ یا کم از کم اس کا ایمان جامد رہ جاتا ہے اور اس میں کوئی بڑھوتری اور ترقی نہیں ہوتی ہے۔

سبب سوم:۔۔۔ نافرمانی اور معصیت کا مرتکب ہونا۔ نافرمانی اور معصیت سے انسان کے دل اور اس کے ایمان پر بڑے برے اثرات پڑتے ہیں۔ اسی سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "نہیں زنا کرتا کوئی زنا کرنے والا جب کہ وہ زنا کر رہا ہو تو وہ مومن بھی ہو!‘‘

سبب چہارم:۔۔۔ اطاعت کے کاموں سے دور رہنا۔ بلاشبہ ترک اطاعت نقص ایمان کا بہت بڑا سبب ہے۔ لیکن اس تفصیل کے ساتھ کہ اگر وہ عمل فرض و واجب ہو اور بغیر کسی عذر کے چھوڑا ہو، تو یہ ایسا نقص ہے کہ اس پر اسے ملامت ہونے کے علاوہ عقوبت (شرعی سزا) بھی ہے اور اگر اطاعت کا کوئی عمل غیر واجب ہو، یا واجب ہو مگر عذر کے باعث چھوڑے تو یہ نقص ہے مگر اس پر ملامت نہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو "کم عقل اور ناقص دین" بتایا ہے۔ ان کے دین میں نقص کی وجہ یہ بتائی ہے کہ جب ان کے ایام مخصوصہ آتے ہیں تو یہ نماز چھوڑ دیتی ہیں اور روزے نہیں رکھتی ہیں، باوجودیکہ ان کے اس عذر سے نماز روزہ چھوڑنے پر کوئی ملامت نہیں بلکہ حکم ہے کہ ان دنوں میں نہ نماز پڑھیں اور نہ روزے رکھیں۔ لیکن چونکہ مردوں کے مقابلے میں یہ انہیں چھوڑے ہوتی ہیں جبکہ مرد کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے دین کو ناقص کہا گیا ہے۔       

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 29

محدث فتویٰ

تبصرے