سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(281) سود والی رقم سے لڑکی کی پرورش اور اسی رقم سے شادی کرنا

  • 17607
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1239

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست نے بینک میں کچھ روپیہ رکھا ،اس روپیہ سے کچھ سود ملا اور میں نے ایک غیر مسلم دوست کی لڑکی کو بچپن ہی سے پرورش کیا ،اور اب وہ بچی شادی کے قابل ہوگئی ہے ،اس کی شادی بھی میرے ہی ذمہ ہے اگر میں اس پروردہ لڑکی کی شادی اپنے دوست کی اس سود والی رقم سے کردوں ،تو کیا میرا یہ کام و خرچ جائز ہوگا؟

واضح رہے کہ جس غیر مسلم کی یہ بیٹی ہے ،وہ غیر مسلم میرا جگری دوست ہے ،اور وہ مسلم قوم و معاشرہ کا ہمیشہ سے وفادار رہا ہے کبھی اس سے مسلم معاشرہ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا ،بلکہ بعض موقع پر وہ شخص مسلم معاشرہ و قوم  کے لئےبہت ہی کار آمد ثابت ہوا۔

(2) کیا اس سودی رقم سے کسی مسلمان کی جو غریب و مجبور اور معاشی حالت سے پریشان ہو ،اس کے کی مدد  کرنی جائز ہے ؟ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوری رقم چاہے اپنی ہو یا کسی دوسرے کی ،اس کو بغیر اضطرار  اور مجبوری کے ،اپنی ذات پر یا ان لوگوں پر جن کا نفقہ شرعا آپ پر لازم ہو ،خرچ کرنا شرعا جائز نہیں ہے ۔سودی رقم سے کسی مسلمان کے لئے بلااضطرار کسی قسم کا انتفاع کی کوئی صورت درست نہیں ہے ،خوراک ،لباس،پوشاک،دواعلاج،تعمیر مکان جس میں  حمام ،غسل خانہ اور نالی بنوانا ،گلی میں کھڑنجا بچھوانا  اور پلیا  بنوانا ،بجلی لگوانا سب شامل ہے ،ا ن میں سے کسی صورت میں بھی صرف کرنا جائز نہیں ہے،اور اپنے کسی ملازم اور نوکر چاکر یا خادم پر بھی ،مرد ہو یا عورت،صرف کرنا جائز نہیں ہے ،سود کی رقم کامصرف سیلاب یا فسادات میں تباہ شدہ لوگ ہیں،خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ،اضطرار کی حالت میں جس طرح دوسرے اموال حرام کا بقدر ضرورت استعمال کرنا ایک "مضطر مسلمان" کے لئے جائز ہے  اسی طرح سود کی رقم کا بھی استعمال ،اس  کے لئے جائز ہے۔

صورت مسئولہ فی السوال میں غیر مسلم بچی کی شادی میں جس کی ذمہ داری اس کی پرورش کرنے والے نے لی ہے ،اپنی سودی رقم ہو یا کسی دوسرے کی،اس کا اس شادی میں خرچ کرنا میرے نزدیک نہ تو حلال بین ہے ،جیسا کہ مفتی عبدالعزیز صاحب کا فتوی ہے ، اور نہ حرام بین ہے،بلکہ مشتبہات  میں داخل ہے ،اور مشتبہات سے پرہیز کرنا ایک متورع اور متقی مسلمان کے لئے متعین اور لاز م ہے ۔اس کے مشتبہات میں داخل ہونے کی کئی وجہیں ہیں:

(1)بچی کی پرورش اور شادی کی ذمہ داری لینے والے کا بچی کے غیر مسلم باپ سے نہایت گہرا دوستا نہ ربط و تعلق ہے ،جس کی بنا پر یہ غیر مسلم اتفاقیہ ہونے والے حادثات میں اپنے مسلم دوست کے کام آتا رہتا ہے ،اور آئیندہ بھی اس کی توقع ہے ،اسی متوقع انتفاع کے پیش نظر اس مسلمان نے اس بچی کی پرورش کی ہے ،اور شادی کی ذمہ داری بھی لی ہے ،اب شادی میں اپنی یا غیر کی سودی رقم صرف کرنے کی  صورت میں اس سے انتفاع کی راہ پیدا ہوجاتی ہے ،اور سودی رقم سے بلا اضطرار کے کسی مسلمان کے لئے کسی طرح انتفاع جائز نہیں ہے ۔

(2)جس مسلمان نے بچی کی پرورش کی ہے اور شادی کی ذمہ داری لی ہے ،ظاہر ہے کہ بچی کی پرورش کرنے والے مسلمان کے گھر میں رہ کر گھریلو کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتی رہے گی،جس پر وہ نوکرانیوں کی طرح اجرت اور معاوضہ کی مستحق ہے،اگرچہ اجرت اور تنخواہ کی کوئی صراحت نہیں کی گئی ہے ۔نہ اس کی طرف کوئی اشارہ کیا گیا ہے ،اس کی پرورش اور شادی کی ذمہ داری قائم مقام اجرت اور معاوضہ کے ہے ،اور اپنے کسی ملازم یا ملازمہ کی تنخواہ سودی رقم سے دینا قطعا جائز نہیں ہے۔

(3)شادی میں صرف غیر مسلم ہی مدعو نہیں ہوں گے ،بلکہ دوسرے مسلمان بھی ضرور مدعو ہوں گے ،اور خود شادی کی ذمہ داری لینے والا بھی شادی کی دعوت طعام وغیرہ میں ضرور شریک ہوگا ،اس صورت میں اپنی یا غیر کی سود ی رقم سے انتفاع کا تحقق ہوجائے گا۔

ان وجوہ  کی بنا پر شادی کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے ،اس شادی میں اپنی  یا غیر کی سودی رقم کا صرف کرنا میرے نزدیک ہرگز ٹھیک نہیں ہے،شادی کی ذمہ داری  پوری کرنے کے لئے غیر مشتبہ ،بلکہ صحیح صورت یہی ہے کہ جس طرح وہ اپنے بچوں کی جملہ ضروریات جن میں ان کی شادی بھی داخل ہے ،پوری کرنے کے لئے حلال کمائی کا انتظام کرتا ہے ،اسی طرح اس غیر مسلم بچی کی شادی میں بھی حلال کمائی سے کام لے۔

ہذا ماظہر لی والعلم عنداللہ

٭ دنیا میں جتنے بینک قائم ہیں سب کے سب بجز سعودی عرب کے سودی کاروبار کرتے ہیں۔اس لئے کسی بینک میں بھی اپنا کھاتہ کھولنا اور روپیہ جمع کرنا بغیر مجبوری اور ضرورت شدیدہ کے جائز نہیں ہے ،کیوں کہ اس میں تعاون علی الاثم و العدوان ہے ،اور مجبوری اور ضرورت کی صورت یہ ہے کہ اپنے گھر میں رقم محفوٖظ نہ رہ سکتی ہو ،اور ضرورت شدیدہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے شہر سے باہر  کاروبار کرنے کی صورت میں مطلوبہ رقم کسی کے ذریعہ نہ پہنچائی جاسکتی ہو اور نہ منگوائی جاسکتی ہو،بجز بینک کے ڈرافٹ اور چیک کے ذریعہ ،ایسی صورت میں بینک میں کھاتہ کھولا جاسکتا ہے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب  جامع الاشتات والمتفرقات

صفحہ نمبر 548

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ