سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(279) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابوشحمہ نامی فرزند تھے؟

  • 17605
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 6492

سوال

(279) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابوشحمہ نامی فرزند تھے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کوئی ابو شحمہ نامی فرزند تھے۔٭

(2)اثبات میں جواب ہوتو کیا یہ قصہ بقول مرشد مصنفہ (زین الدین مخدوم) منتقی ،ذکر الموت ،تاریخ الخمیس ،الریاض النضرہ،حیاۃ الحیوان الکبریٰ ،تاریخ ابن قتیبہ ،قصہ ابوشحمہ (اردو) قصہ ابوشحمہ (عرب تامل)واکثر کتب۔

کسی عورت سے زنا بالجبر کے ارتکاب جرم پر ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازروئے شرع حد زنا جاری کیا ،جس میں ان کی موت واقع ہوئی ۔صحیح ہے؟۔

(3)بقول اکثر علماء یہ قصہ شیعہ (رافضی) کی افتراپردازی ہے ،تاکہ وہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو موردلعن و طعن قرار دے کر اپنی فطری عداوت کا ثبوت دیں۔

(4)اگر اہل تشیع کی افتراپردازی ہو،تو یہ قصہ کس زمانہ میں وقوع پذیر ہوا؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فرزند ابو شحمہ نامی تھے۔ان کا نام عبدالرحمن الاوسط ہے ،چوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین صاحبزادوں کا نام عبدالرحمن ہے اس لئے بغرض امتیاز بڑے لڑکے کو عبدالرحمٰن الاکبر،اور مجھلے لڑکے کو عبدالرحمن الاوسط(جن کی کنیت ابوشحمہ ہے )اور چھوٹے لڑکے کو عبدالرحمٰن الاصغر کہتے ہیں۔

(2)حضرت ابوشحمہ کے زنا بالجبر کا قصہ اور اس ارتکاب حرام پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حد جاری کرنے کا قصہ بالکل جھوٹا،باطل ،گھڑا ہوا ،بناوٹی ہے۔اس قصہ کی کوئی اصلیت نہیں ہے،یہ ایک بازاری گپ ہے۔

(4،3) میرے خیال میں یہ قصہ روافض کا گھڑا اور بنایا ہوا نہیں ہے،بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دشمنوں اور دوستوں دونوں نے مل کر اس قصہ کو گھڑا ہے،بلکہ وجدان تو یہ کہتا ہے کہ یہ صرف ان صوفیوں اور داستان گو واعظوں کی گھڑی ہوئی کہانی  ہے،جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی محبت میں،ان کی حق گوئی ،عدل پروری ،انصاف پسندی ،خشیت الہیٰ ،عمل بالقرآن ،اجراء حدود الہیہ میں شدت،تصلب فی الدین،دین کے معاملہ میں لومۃ لائم سے بے خوفی اور عزیز و اجنبی کے ساتھ ان کے یکساں برتاو ظاہر کرنے کے لئے ،یہ لمبی داستان وضع کی ہے۔تاکہ شیعان علی اور دشمنان فاروق تبرائیوں کے مقابلہ میں حضرت عمر کی عظمت و شان نمایاں کریں۔ اپنے خیال میں اس نیک مقصد (اظہار منقبت عمر) کے لئے انہوں نے ایک درد انگیز رقت آمیز حکایت وضع کرڈالی ،جس سے شیعان علی کو بھی ایک گونہ فائدہ پہونچ گیا یعنی یہ کہ نعوذ باللہ عمر فاروق کی اولاد فاسق و فاجر تھی اور مثل مشہور ہے

یہ قصہ اس زمانہ میں گھڑا گیا ہےجب خلافت بنو امیہ اور اس کے بعد کے دور میں شیخین رضی اللہ عنہما کے  خلاف سب و شتم ،لعن و طعن کا دروازہ کھل گیا تھا اور فریقین نے ایک دوسرے کے بزرگوں کو برابھلا کہنا اور اپنے بزرگوں کی منقبت بیان کرنا،ایک دینی کام تصور کرلیا تھا،اور محبان فاروق کا ان کے متعلق مظہر منقبت اور رقت انگیز حکایت گھڑ لینا کچھ بھی مستعبد نہیں ہے،جب کہ محبان رسول زاہدوں اور صوفیوں اور داستان گو واعظوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بے شمار حدیثیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کردیں۔

اس قصہ کو تمام محقق اور معتبر ائمہ دین نے بالاتفاق بناوٹی قرار دیا ہے،چنانچہ حافظ ابن حجر صاحب فتح الباری شرح صحیح بخاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

"ابوشحمہ بن عمر بن الخطاب کےمتعلق جو واقعہ مروی ہے کہ عمر فاروق نے زنا کے جرم میں ،ان پر حد قائم کی،جس سے ابو شحمہ کا انتقال ہوگیا،یہ روایت  بالکل ناقابل اعتبار ہے۔"

اور علامہ سیوطی  میں پہلے سعید بن مسروق کے طریق سے اس قصہ کو مختصر طورپر ذکر کرکےلکھتے ہیں

 "یہ قصہ من گھڑت ہے ،افسانہ سراون نے گھڑ لیا ہے اس روایت کی سند میں بہت سے مجہول راوی ہیں"

پھرمجاہد عن ابن عباس کے طریق سے بروایت شیرویہ بن شہریار ویلمی تقریبا دو صفحہ میں اس قصہ کو لکھ کر یہ تحریری فرماتے ہیں: (موضوع فيه مجاهيل قال الدار قطنى حديث مجاهد عن ابن عباس فى حديث ابى شحمة ليس بصحيح وقدر ورى من طريق عبدالقدوس بن الجاج عن صفوان عن عمر وعبدلقدوس كذاب يضع وصفوان بينه وبين عمر رجال انتهي)

"اس واقعہ کی کوئی اصلیت نہیں ۔دارقطنی نے کہا ہے کہ ابوشحمہ کا واقعہ جھوٹا ہے۔"

اور علامہ محمد طاہر فنتی تذکرۃ الموضوعات  (108) اور خاتمہ مجمع البحار 3/517 میں لکھتے ہیں

(حديث ابى شحمة ولد عمر رضى الله عنه وزنا ه وقامه عمر عليه االحدو وموته بطوله لايصح بل وضعه القصاص انتهى)

"عمر فاروق کے بیٹے ابو شحمہ کا یہ واقعہ کہ زنا کے جرم میں عمر بن الخطاب نے ان پر حد قائم کی ،جس سے ان کی موت واقع ہوئی بالکل جھوٹا قصہ ہے،"

اور علامہ شوکانی الفوائد المجموعہ ص:125 میں لکھتے ہیں:

(حديث عمر اقام الحد على ولدله يكنى اباشحمة بعد موته فى قصة طويله موضوع انتهى)

"ابوشحمہ عمر کے بیٹے کے ارتکاب زنا کا قصہ جھوٹا ہے"۔

(المعارف لابن قتيب ابوشحمة)کےزنا بالجبر اور حد جاری کئےجانے کا قصہ قطعا مذکور نہیں ہے۔اس لئے اس کا حوالہ دینا  فریب دہی ہے۔"تاریخ الخمیس"ص 280 میں زنا بالجبر اور حد جاری کئے جانے کا قصہ شیرویہ بن شہریار ویلمی کی "کتاب المتقی" کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔اور "الریاض النضرہ" میں بھی انہی ویلمی کی "المنتقی" کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔اور یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ ویلمی وغیرہ کا  یہ روایت کردہ قصہ باطل اور جھوٹا ہے۔"طبقات ابن سعد"میں بھی زنا کرنے اور حد جاری کئے جانے کی حکایت مذکور نہیں ہے۔

اس قصہ کے متعلق صرف اس قدر صحیح ہے کہ خلافت  فاروقی میں جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے ،ابو سروعۃ بدری صحابی اور ابوشحمہ عبدالرحمن الاوسط بغرض جہاد مصر گئے ۔ان دونوں بزرگوں نے ایک رات نبید نوش کیا (کھجور یا کشمش پانی میں بھگو دیا کرتے اور جب اس کی مٹھاس پانی میں آجاتی اور پانی شربت کی طرح میٹھا ہوجاتا تو اس کو بغیر جوش دئے ہوئے ،قبل اس کے کہ اس میں نشہ پیدا ہو شربت کی جگہ استعمال کرتے ۔اس کو باصطلاح شرع"نبید" کہتے ہیں۔اور شرعا اس کے استعمال میں جب تک اس میں سکر کا احتمال نہ ہو،کوئی کراہت نہیں ہے۔آں حضرت ﷺ نے خود بارہا ایسی نبید یعنی یہ شربت نوش فرمایا ہے

(ابوداود وغیرہ)

ان دونوں بزرگوں نے اس "نبید" کو غیر مسکر سمجھ کر استعمال کرلیا۔پینے کے بعد معلوم ہوا کہ نبید دیر کی تھی،او اس میں اسکار کی شان پیدا ہوگئی تھی۔ظاہر ہے کہ دونوں بزرگوں نے دیدہ و دانستہ قصدا نشہ آور چیز استعمال نہیں کی تھی،بلکہ غلطی اور بے احتیاطی سے اس نبید کو جس میں اسکار کا اثر آگیا تھا،غیر مسکر سمجھ کر استعمال کیا تھا،اس بنا پر وہ شرعا مستحق و مستوجب حد شرب خمر نہیں تھے۔اس کوتاہی اور بے احتیاطی پر صرف توبہ و ندامت کافی تھی۔لیکن ان دوونوں  بزرگوں نے اپنے کمال ورع و تقویٰ کی بنا پر اپنے نفس کو تنبیہ دینے اور اس بے احتیاطی کے جرم سے پاک ہونے کے لئے گورنر مصر کے سامنے اپنے کو پیش کردیا،اور اپنے اوپر شراب کی حد جاری کئے جانے پر اصرار کیا۔گورنر مصر نے محض ان کے اصرار کا خیال،اپنے مکان کے احاطہ میں ،جہاں ہر مسلم و غیر مسلم پر حد شرعی جاری کرتے تھے ،شراب کی حد دونوں بزرگوں پر جاری کردی۔شدہ شدہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوگیا،دربار خلافت سے گورنر مصر کو اس مضمون کی تہدید آمیز چٹھی پہونچی کہ تم نے عبدالرحمن کے ساتھ یہ رعایت کیوں کی یعنی اپنے گھر میں حد کیوں جاری کی؟عام مسلمانوں کی طرح برملا حد جاری کرنا چاہے تھے۔عبدالرحمن کو فورا میرے پاس روانہ کرو۔جب یہ مدینہ پہونچے تو حضرت عمر نے اس غفلت اور بے احتیاطی پر تنبیہ کرنے کے لئے ،جوان سے نبید کو بغیر تحقیق و دیکھ بھال کے پی لینے میں ہوئی تھی کچھ سزادی۔اس کے بعد وہ اتفاق سے بیمار پڑے او ر وفات پاگئے ۔بس صرف یہ ہے قصہ کی اصل۔

حافظ ابن عبدالبر الاستیعاب 2/403 میں لکھتے ہیں:

(وعبد الرحمن بن عمر الأوسط، هو أبو شحمة، هو الذي ضربه عمرو بن العاص بمصر في الخمر، ثم حمله إلى المدينة، فضربه أبوه أدب الوالد، ثم مرض ومات بعد شهر، هكذا يرويه معمر عن الزهري، عن سالم، عن أبيه.

وأما أهل العراق فيقولون: إنه مات تحت سياط عمر، وذلك غلط. وقال الحافظ فى الاصابة4/104بعد ذكر قو ل ابن عبدالبر وقد اخرج عبدالرزاق القصة موصولة عن معمر بالسند المذكور وهو صحيح انتهى وقال الجزرى فى اسد الغابة3/316مثل ماقال ابن عبدالبر

"گورنر مصر عمروبن العاص نے عمر فاروق کے بیٹے ابوشحمہ کو ایسی نبید جس میں نشہ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کے پینے کی وجہ سے حد لگائی گئی تھی،پھر جب ابوشحمہ مدینہ بھیجے گئے تو عمر فاروق نے ادب اور تنبیہ کے طور پر کچھ سزا دیا،اس کے بعد اتفاق سے ابوشحمہ بیمار ہوگئے اور ایک ماہ کے بعد انتقال کرگئے۔یہی  واقعہ کی اصلیت ہے"۔

(وَالَّذِي ورد فِي هَذَا مَا ذكره الزُّبَير بْن بكار وَابْن سَعْد فِي الطَّبَقَات وَغَيرهمَا أَن عَبْد الرَّحْمَن الْأَوْسَط منْ أَوْلَاد عُمَر ويكنى أَبَا شحمة كَانَ بِمصْر غازيًا فَشرب لَيْلَة نبيذًا فَخرج إِلَى السكر فجَاء إِلَى عَمْرو بْن الْعَاصِ فَقَالَ أقِم عَلَى الْحَد فَامْتنعَ فَقَالَ لَهُ أخبر أَبِي إِذا قدمت عَلَيْهِ فَضَربهُ الْحَد فِي دَاره وَلم يُخرجهُ فَكتب إِلَيْهِ عُمَر يلومه ويَقُولُ أَلا فعلت بِهِ مَا تفعل بِجَمِيعِ الْمُسلمين فَلَمَّا قدم عَلَى عُمَر ضربه وَاتفقَ أَنَّهُ مرض فَمَاتَ.)

"ابوشحمہ مصر میں بغرض جہادگئے ہوئے تھے،ایک رات بد احتیاطی سے ایسی نبید پی لی جس میں سکر (نشہ ) آچکا تھا۔جب ان کو محسوس ہو،تو کمال ورع اور تقویٰ کے تقاضا سے عمرو بن العاص گورنر مصر کے پاس آئے اور کہا مجھ پر حد جاری کیجئے۔چونکہ نادانستہ طور پر پی تھی،اس لئے گورنر نے حد جاری کرنے سے انکار کردیا۔یہ سن کر ابوشحمہ نے کہا اگر آپ حد نہیں جاری کرتے ہیں تو عمر فاروق کو میں اس کی خبر کروں گا ،گورنر نے مجبور ہوکر ان پر اپنے گھر میں حد لگائی۔جب عمر بن الخظاب کو خبر ہوئی تو گورنر کو لکھا کہ تم نے میرے بیٹے پر سر مجلس حد کیوں نہیں لگائی۔آخر جب ابو شحمہ مدینہ گئے تو عمر فاروق نے بھی ادب دلانے کے لئے کچھ سزا دی۔اتفاق سے اس کے بعد ہی ابوشحمہ بیمار پڑے اور انتقال کرگئے۔"

(«أَبِي شَحْمَةَ وَلَدُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَزِنَاهُ وَإِقَامَةُ عُمَرَ عَلَيْهِ الْحَد وَمَوته» بِطُولِهِ لَا يَصح بل وَضعه الْقصاص، وَالَّذِي ورد مَا رُوِيَ «أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ الأَوْسَطَ مِنْ أَوْلادِ عُمَرَ وَيُكْنَى أَبَا شَحْمَةَ كَانَ غَازِيًا مَضَى فَشَرِبَ نَبِيذًا فَجَاءَ إِلَى ابْنِ الْعَاصِ وَقَالَ أَقِمْ عَلَيَّ الْحَدَّ فَامْتَنَعَ فَقَالَ إِنِّي أُخْبِرُ أَبِي إِذَا قَدِمْتُ عَلَيْهِ فَضَرَبَهُ الْحَدَّ فِي دَارِهِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ يَلُومُهُ فَقَالَ أَلا فَعَلْتَ بِهِ مَا تَفْعَلُ بِالْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ ضَرَبَهُ وَاتَّفَقَ أَنْ مَرِضَ فَمَاتَ)

محمد طاہر فتنی نے بھی لکھا ہے  کہ :"ابو شحمہ جہاد کے لئے مصر گئے ہوئے تھے کسی رات نبید پی لی جس میں سکر آچکا تھا ،آخر عمر وبن العاص گورنر مصر سے اصرار کہ مجھ پر شراب پینے کی حد جاری کیجئے ۔گورنر نے حد جاری کردی،جب مدینہ گئے تو آپ کے والد بزرگوار حضرت عمر نے بھی تنبیہ کے لئے کچھ سزا دی ،اتفاقیہ اس کے بعد بیمار ہوگئے جس میں انتقال بھی ہوگیا"۔

(وكذا ذكر العلامة الشوكانى فى الفوائد المجموعة ص:125وقدعقد العلامة ابن الجوزى فى سيرة عمربن الخطاب ص236بابا فى ذكرضربه لولده على شرب الخمر وارد فيه اولارواية طويلة فى ذلك ثم ذكر من رواية الزهرى عن سالم بن عبدالله عن عبدالله بن عمر انه جلد عمروبن العاص ابا سروعة وعبدالرحمن بن عمر على شراب سكرامنه فسمع عمر بن الخطاب بان عمروبن العاص اقام الحد على عبدالرحمن فى صحن داره فكتب الى عمر وان ابعث الى بعبدالرحمن بن عمر على قتب ففعل ذلك عمر فلما قدم عبدالرحمن على عمر جلده وعاقبه من اجل مكانه منه ثم ارسله فلبث شهر صحيحا ثم اصاب قدره فيحسب عامة الناس انه مات من جلد عمر ولم يمت من جلده

قال ابن الجوزى: "ولا ينبغي أن يظن بعبد الرحمن أنه شرب الخمر، إنما شرب النبيذ متأولاً، فظن أن ما شرب منه لا يسكر، وكذلك أبو سروعة، فلما خرج الأمر بهما إلى السكر طلبا التطهير بالحد، وقد كان يكفيهما مجرد الندم، غير أنهما غضبا لله تعالى على أنفسهما المفرطة، فأسلماها إلى إقامة الحد، وأما إعادة عمر الضرب؛ فإنما ضربه تأديباً لا حدايكرر وقد اخذ الحديث قوم مين القصاص فابد وافيه واعادوا فتارة يجعلون هذا الولد مضروبا على شرب الخمر وتارة ا على الزنا ويذكرون الكلام رققا يبكى العوام لايجوز ان يصدر من مثل عمر وقد ذكرت الحديث بطريقه فى كتاب الموضات ونزهت هذا الكتاب عنه انتهى مختصرا".

علامہ ابن الجوزی نے اس سلسلہ میں ایک باب باندھا ہے ،جس میں لکھا ہے کہ "بدری صحابی ابوسروعہ اور ابوشحمہ دونوں کو گورنر مصر عمرو بن العاص نے مسکر نبید کے پینے پر گھر کے صحن میں حد ماری تھی،جب عمر بن الخطاب کو خبر ہوئی تو گورنر کو لکھا کہ ان کو بھیج دو،چنانچہ جب ابو شحمہ مدینہ گئے تو عمر فاروق نے بھی سزا دی ۔اس کے بعد ایک ماہ تک بالکل تندرست رہے۔بالاخر اتفاقیہ بیماری پڑے اور انتقال کرگئے،لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر فاروق کے کوڑا مارنے سے مرے ہیں(حالانکہ یہ غلط ہے)۔

ابن الجوزی نے یہ بھی لکھا ہےکہ یہ بات بہت ہی بعید ازقیاس ہے کہ ابوسروعہ صحابی بدری جیسے عظیم المرتبت بزرگ ،ابو شحمہ جیسے فرزند ارجمند دانستہ شراب پیئں ،فی الحقیقت ان بزرگوں نے نبید بی تھی،جس میں سکر (نشہ) آگیا تھاجس کا ان کو علم نہ تھا،جب معلوم ہوا،تو کمال تقویٰ کی وجہ سے حد قائم کرانے پر مصر ہوئے ۔اگرچہ اس نادانستہ گناہ پر توبہ اور اظہار ندامت کافی تھی۔واعظوں اور افسانہ سراوں نے اس واقعہ کو عجیب رقت انگیز طرز،پر رونے دولانے کےلئے بیان کیا ہے۔کبھی بتاتے ہیں کہ ارتکاب زنا کے جرم میں ،اور کبھی کہتے ہیں کہ شراب پینے کی وجہ سے انہیں عمررضی اللہ عنہ نے مارا تھا، جس سے ان کی موقت واقع ہوئی ۔بہر کیف اصلیت وہی ہے جو لکھی گئی انتہیٰ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب  جامع الاشتات والمتفرقات

صفحہ نمبر 527

محدث فتویٰ

تبصرے