السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مفتیان اسلام و محدثین عظام علمائے شرع متین/(زاد الله فيوضاتهم واذ قال موسى لقومه فذبحوها وماكادوا يفعلون ان چند آیات کلام مجید کے مصداق میں ،لوگوں میں فتنہ ،مذاق ،نکتہ چینی ،بدامنی پیدا ہے۔مذکورہ اسباب کی تلافی علمائے دین کے فتوی پر مبنی ہے،براہ کرم روانہ فرماکر ثواب دارین حاصل کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴾(سورة البقره:67)﴿ وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ﴾(سورة البقره:72) ان آیات میں جس قصہ کو ذکر فرمایا گیا ہے ،اس سے مقصود بنی اسرائیل کی شرارت و بے عنوانی کا ذکر کرنا ہے ،ان آیات سے قبل دور سے ان کی بے عنوانیوں اور شرارتوں کا ذکر چلا آرہا ہے،اس قصہ کے ضمن میں بھی ان کی دو بے عنوانیوں کا ذکر ہے جو اس قصہ میں مقصود و مطلوب ہے۔ایک بے عنوانی یہ کہ انہوں نے قتل کے واردات کے اخفا اور چھپانے کی کوشش کی ،اور یہ چاہا کہ مجرم کا سراغ نہ لگ سکے اور معاملہ یونہی دب جائے۔
دوسری بے عنوانی یہ کہ حکم خداوندی میں خواہ مخواہ کے حجتیں نکالنی شروع کردیں،اللہ تعالیٰ منکرین قیامت کے مقابلہ میں اس قصہ سے استدلال اور نظیر کے طور پر فرماتے ہیں ﴿فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِ اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾ (سورة البقره:73)) یعنی :" اسی طرح اللہ تعالیٰ (قیامت میں ) مردوں کو زندہ کرے گا،اور اللہ تعالیٰ اپنی نظائر (قدرت) تم کو دکھلاتے ہیں،اس توقع پر کہ تم عقل سے کام لیا کرو"(اور ایک نظیر سے دوسری نظیر سے باز آو)۔معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مردوں کے زندہ کرنے پر استدلال بھی ،اس قصہ کے ذکر کرنے سے مقصود ہے اور یہ دنوں مقصود باحسن طریق اس قصہ سے ثابت ہورہے ہیں۔واضح ہو کہ "بقرۃ" کے کسی ٹکڑے سے مردہ کو چھوانے سے اس مردہ کا زندہ ہوجانا نہ محال ہے اور نہ مستعبد۔جو شخص بے جان مضغہ یعنی گوشت کے لوتھڑے میں جان پڑنے کے طریق میں غور کرے گا،جس کی کل حقیقت ایک لطیف بخار کا مضغہ سے مس کرنا اور متصل ہوجانا ہے ،وہ اس قصہ میں بیان کئے ہوئے خاص طریق کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مستعبد نہیں سمجھے گا ،اور دونوں اتصالوں میں کوئی معقول عقلی فرق بیان نہ کرسکے گا۔واضح ہو کہ یہاں یہ شبہ کرنا بے موقع اور لغو ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ویسے ہی زندہ کرنے کی قدرت تھی ،یا بے زندہ کئے ہوئے قاتل کو بتلاسکتے تھے ،پھر اس سامان کی کیا ضرورت تھی۔
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے نہیں ہوتا،بلکہ مصلحت اور حکمت کےلئے ہوتا ہے ،اور ہرواقعہ کی تمام حکمتیں اور مصلحتیں اللہ تعالیٰ ہی کے احاطہ علمی میں آسکتی ہیں،دوسروں کو اس فکر میں پڑنا عمر کا ضائع کرنا ہے ،کیوں کہ جو مصلحت اور حکمت بیان کی جائے گی،وہ بھی ایک بیان ہوگا،اور یہی سوال اس میں بھی ہوگا،اس لئے سلامتی کا راستہ اور دانائی اسی میں کہ سکوت اور تسلیم اختیار کیا جائے۔
اس مختصر تحریر کے بعد امید ہے کہ انصاف پسند،حق کی طالب طبیعتوں میں اس قصہ سے متعلق کوئی خلجان اور وسوسہ نہیں باقی رہے گا۔مفصل تفسیر اور توضیح"روح المعانی" اور تفسیر حقانی " وغیرہ میں دیکھ لی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب