السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چہرہ کا خط بنوانا کیساا ہے اور ڈاڑھی کے نیچے گلے کے بال کا منڈوانا جائزہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عن ابن عمر قال: رسو ل الله صلى الله عليه وسلم :حفو الشوارب واعفو الحى اى اتركوها على حالها(بخارى مسلم وفى رواية:اوفوا اللحى :اى اتركوها وافية كاملة وفى حديث ابى هريرة عندالشيخين ارخو اللحى اى اتركوها ولا تتعرضوالها بتغير ووقعه فى روياية مسلم عند ابن ماهان :ارجو اى واتركوها وفى رواية للبخارى وفرو اللحى اى كثروها واجعلوها وافرة وقال النووى فى شرح مسلم3/151فحصل خمس روايات اعفوا وارخو وارجو ووفروا و معناها كلها تركها على حالها هذا هو الظاهر من الحديث الذى يقتضيه الفاظيه انتهى
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے آن حضور ﷺ سے فرمایا: "مونچھوں کو پست کرو اور داڑھیوں کو بڑھاو"(یعنی:اپنی حالت پر چھوڑ دو(بخاری ،مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ :"اس کو اپنی بڑھی ہوئی کامل و مکمل صورت میں چھوڑدو"،اور بخاری و مسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے کہ :"داڑھیوں کو طویل ہونے دو"اس کی تغییر و تبدیل کے درپے نہ ہو۔اور مسلم کی ایک روایت میں ابن ماہان کے طریق سے مروی ہے کہ "داڑھیوں کو چھوڑ رکھو"اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ بڑھنے اور زیادہ ہونے دو"۔
امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے :حدیث میں پانچ الفاظ وارد ہیں جن میں سے ہر ایک کا محصل یہی ہے کہ داڑھی اپنی حالت پر چھوڑ رکھی جائے ،احادیث کے ظاہری الفاظ کا یہی اقتضا ہے۔
(واللحية ماينب على الخذين والذقن كذا فى لقاموس وغيره من كتب الغة وقال القسطلاني فى شرح البخارى اللحى بكسر اللام وتضم بالقصر والمدلحية وهى اسم لماينب على العارضين والذقن) یعنی "دونوں رخساروں اور تھوڑی کے بالوں کو لحیہ کہتے ہیں،جس کی حد دائیں اور بائیں سے صدغ (مابین العین والاذن) یعنی کنپٹی تک ہے "چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے حجام سے فرمایا تھا (ابلغ العظين فانها منتهى اللحية(غرائب)) اور نیچے کے لب سے حلق تک ہے ،خلاصہ یہ کہ ان حدود اربعہ کے درمیان داڑھی ہے ،اور آں حضرت ﷺ نے داڑھی کترنے ،تراشنے ،مونڈھنے یا خط دائیں بائیں،آگے پیچھے ،طول و عرض سے اس کے کچھ بال لینے کی ممانعت مختلف الفاظ میں فرمائی ہے ،پس داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہے ،اور طول وعرض سے کچھ بھی نہ تراشنا چاہے۔
(قال شيخنا الاجل المباركفورى فى شرح الترمذى4/11بعد بسط الكلام فى هذه المسئلة: فَهَذِهِ الْآثَارُ لَا تَصْلُحُ لِلِاسْتِدْلَالِ بِهَا مَعَ وُجُودِ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ الصَّحِيحَةِ فَأَسْلَمُ الْأَقْوَالِ هُوَ قَوْلُ مِنْ قَالَ بِظَاهِرِ أَحَادِيثِ الْإِعْفَاءِ وَكَرِهَ أَنْ يُؤْخَذَ شَيْءٌ مِنْ طُولِ اللِّحْيَةِ وَعَرْضِهَا واللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ
اعلم أن أثر بن عُمَرَ الَّذِي أَشَارَ إِلَيْهِ الطَّبَرِيُّ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ في صحيحه بلفظ وكان بن عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ
قَالَ الْحَافِظُ هُوَ مَوْصُولٌ بِالسَّنَدِ الْمَذْكُورِ إِلَى نَافِعٍ وَقَدْ أَخْرَجَهُ مَالِكٌ فِي الْمُوَطَّأِ عَنْ نَافِعٍ بِلَفْظِ كَانَ بن عُمَرَ إِذَا حَلَقَ رَأْسَهُ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ أَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ وَشَارِبِهِ وَفِي حَدِيثِ الباب مقدار المأخوذ
حضرت علامہ مولانا عبدالرحمن صاحب مرحوم تحفۃ الحوذی شرح ترمذی میں اس مسئلہ کی تفصیل کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ :"ظاہر احادیث کے پیش نظر صحیح و سالم طریقہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی کو اس کے طول و عرض کسی طرف سے نہ لیا جائے ،اور ترمذی میں عمروبن شعیب کے طریق سے جو حدیث مروی ہے کہ حضور علیہ السلام داڑھی کو طول و عرض سے لیا کرتے تھے،تو یہ حدیث ضعیف ہے قابل حجت نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہا کا یہ فعل کہ وہ اپنی داڑھی کو جو مٹھی سے زائد ہوتی تھی،کترلیا کرتے تھے،سویہ حدیث کے معارض نہیں۔دوسرے یہ کہ ابن عمر نے حج کے ایام میں ایسا کیا تھا ان کا خیال تھا کہ سر کے بال کے ساتھ ڈاڑھی کا بھی قصر ہونا چاہے"۔
اس تفصیل سے واضح ہوگیا ہوگا کہ گلے (حلق) کا بال ڈاڑھی میں داخل نہیں ہےبنابریں اس کا منڈانا جائز ہے۔او رصدغ(کنپٹی) اور اس سے نیچے کا بال ڈاڑھی میں داخل ہے پس خط بنوانے میں کنپٹی اور اس سے نیچے رخسار کے کسی حصے کے بال سے تعرض نہیں کرنا چاہیے۔امام نووی شرح مسلم(3/150) میں فرماتے ہیں (قدذكر العلماء فى اللحية اثنتى عشرة خصلة مكروهة بعضها اشد قبحا من بعض ثم عدها قال:السابعه:الزيادة فيها والنقص منها بالزيادة فى شعر العذار من الصدغين واخذ بعض العدار فى حلق الراس)
داڑھی کی تشریح میں علماء کے بارہ اقوال ہیں۔اور صدغ سے اوپر اس طرح خط بنوایا جاسکتا ہے کہ غیرمسلم قوموں کے شعار اور ان کے مخصوص طریقہ کے مشابہ نہ ہو۔آں حضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں(من تشبه بقوم فهو منهم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب