سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(264) ايصال ثواب کی خاطر غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا

  • 17590
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1189

سوال

(264) ايصال ثواب کی خاطر غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایصال ثواب کےلئے بغیر تعیین تاریخ جمعرات کو (اس بنا پر کہ اس دن فقراء کثرت سے آتے ہیں)اغنیاء اور فقراء کی ایک ساتھ عام دعوت کرنی جائز ہے یا نہیں؟اس قسم  کی دعوت میں شرکت کرنے والوں کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی شخص اس دعوت میں شریک نہ  ہو،تو (اجاب اذا دعی) کے خلاف تو نہ ہوگا؟اس قسم کی دعوت کی نظیر خیرالقرون میں ملتی ہے یا نہیں ؟ ایصال ثواب کی عام احادیث کی رو سے اس نوع کی دعوت کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشترکہ عام دعوت میں فقرااور اغنیاء کو بغیر ارادہ فخر وریا کے ااور بغیر رسم کی پابندی کے ،بایں طور کھلانا کہ فقراء جس قدر کھائیں ،اس سے مقصودمیت کی ایصال ثواب ہوا ور جس قدر اغنیا کھائیں و ہ دوستانہ دعوت اور ہدیہ کے طریق پر ہو،اس میں کوئی مضائقہ اور ہرج نہیں ۔ارشاد ہے ﴿فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾سورة البقره:220) جب یتیم کے مال اور حق کو (جس کا کھانا ولی کے لئے درست نہیں )بشرط اصلاح اپنے مال کے ساتھ ملانا اور تیار کرنا جائز ہے ،تو کسی کے مرجانے کے کچھ دن کے بعد ایصال ثواب کی غرض سے (جوضروری نہیں ہے ،اور نہ فقراء کا حق واجبی ہے بلکہ وہ مال اور حق صدقہ کرنے والے کی ہی ملکیت ہے )فقراء والے کھانے کو اور ہدیہ و دعوت دوستانہ کی نیت سے اغنیاء والے کھانے کو ملا کر تیار کرنے اور مشترکہ دعوت کرنے میں بھی کوئی قباحت و کراہت نہیں ،اور جب یہ دعوت درست ہے تو اس میں اغنیاء  کا شریک ہونا جائز ہے اور اس کا رد کرنا (اجاب اذا دعى) کے خلاف ہے ۔ایسی مشترکہ دعوت کی نظیر خیر القرون میں مجھے نہیں ملی،لیکن ایصال ثواب کی عام احادیث اور آیت مذکورہ بالا کی رو سے یہ دعوت جائز ہے ،بالخصوص جب کی منع و کراہت کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔

(محدث دہلی ج:10ش:7 شوال 1361ھ/نومبر1942ء)

٭ ختنہ کی دعوت کرنا،عرب میں جاہلی دستور چلاآتا تھا اور اسلام نے آکر اس سے منع نہیں کیا،بلکہ سکوت اخیتار کیا ،اور یہ دلیل ہے اس کی اباحت و جواز کی۔ پس اگر بغیر کسی اہتمام کے ختبہ کی دعوت کردی جائے تو مضائقہ نہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جناب سالم کے ختنہ کے موقعہ پر مینڈھا ذبح کیا تھا۔اس پر امام بخاری نے الادب المفرد(1246)ص:321 میں(باب الدعون الى الختان) کا ترجمہ منعقد فرمایا ہے۔

رہ گئی مسند احمد اور طبرانی کی روایت جس میں عثمان بن ابی العاص یہ فرماتے ہیں کہ (انا كنا لاناتى الختان على عهد رسول الله صلى الله عليه ولاندعى) تو اس کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہیں،اور وہ اگرچہ ثقہ ہیں،لیکن مدلس بھی ہیں،اور "عن" کے ساتھ یعنی :بغیر تصریح سماع کے روایت کرتے ہیں۔

(محدث بنارس ،شیخ الحدیث نمبر)

٭ عہد نبوت اور عہد صحابہ میں ختنہ کی دعوت کرنے کا معمول نہیں تھا۔لیکن اگر اتفاقی طور پر بلاکسی تکلف اور خاص اہتمام کے کچھ خاص عزیزوں او دوستوں کو ختنہ کی دعوت دے دی جائے ،تو مضائقہ نہیں ،جیسا کہ حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں(ختنى رايتنا وانا لنجدل به وانا لنجذل به على الصبيان ان ذبح عنا كبشا)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب  جامع الاشتات والمتفرقات

صفحہ نمبر 501

محدث فتویٰ

تبصرے