سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) باپ کی جائیداد کا اصل مستحق

  • 17582
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1056

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ جو شخص اپنے والد کو جو کہ ضعیف العمر ہشتاد سالہ عمر کا موجد جس کی بیعت بھی حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا اور تمام عمر از سن بلوغ تاحال حدیث رسول اللہﷺ کا شیدا ہو اور اس نے اپنی کمائی سے ذاتی جائداد دنیاوی بنائی ہو ،وہ شخص اپنی پیدا کردہ جائیداد کو جس طرح چاہے تصرف میں لاسکتا ہے ،اور اپنے چند دیگر فرزندان میں سے ایک کو جو ہر لحاظ سے عاق ہو حالاں کہ اس کو پڑھایا ہو ختنہ ،شادی اور ملازم کرایا ہو،پھر وہ اس قسم کا اشتہار شائع کرائے تو شرعا وہ اس باپ کی جائیداد کا مالک ہوسکتا ہے؟جب کہ باپ نے عرصہ چار سال سے عاق بھی کردیا ہوا ہے اور جائیداد باقی فرزندان کے نام منتقل کردی ہے،اس کی اطاعت اور نافرمانی کا لب لباب اشتہار سے ظاہر ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)والدین کی اطاعت اولاد پر فرض ہے جب تک وہ معصیت الہی اور شرک و کفر کا حکم نہ دیں ،اگر اولاد ماں باپ کے حقوق ادا نہیں کرے گی تو سخت گنہگار ہوگی کیوں کہ کیوں کہ حقوق والدین گناہ کبیرہ ہے ،اسی طرح والدین کے ذمہ اولاد کے حقوق ہیں جن کا پورا کرنا والدین پر ضروری ہے ،اگر ماں باپ اپنی اولاد کے حقوق پورا نہ کریں گے تو گنہگار ہوں کے ،یہ دونوں باتیں بالکل کھلی ہوئی ہیں۔آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ سے ثابت اور محقق ہیں۔

(2)شرعا عاق وہ شخص ہے جو ماں باپ کانافرمان ہو،ان کو اپنے قول و عمل سے اذیت اور دکھ پہونچاتا ہو،ان کی خدمت نہ کرے اور ان کی راحت و آسائش کا خیال نہ رکھے۔ازروئے شرع باپ کا اپنے بیٹے کو "عاق"کرنے کاکوئی معنی نہیں ہے۔والدین کا اپنی اولاد کو عاق کرنا ایک لغو اور مہمل بات ہے۔

(3)جب کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ دینا چاہیے ،تو تمام اولاد بیٹا بیٹی سب کو برابر برابر دے ،تسویہ بین الاولاد فی الھبۃ ضروری اور واجب ہے،آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں"اعدلو بین اولادکم"ابوداود (1)نسائی (2)اور فرمایا(عربی)(3)یہاں تک اولاد میں سے کسی ایک نے اگر مقابلہ زیادہ خدمت کی ہے ،تب بھی حق الخدمت و حق المحنت کے طور پر بطریق معاوضہ اس کو کچھ زیادہ نہیں دے سکتا

بہرحال عدل بین الاولاد ضروری ہے۔

(4)اولاد میں سے اگر کوئی نالائق و سرکش ،عاق و نافرمان ہے۔تو اس کو کچھ نہ دینا یا ایسے یعنی باپ کا مختلف حیلوں اور ذریعوں سے جائداد منقولہ وغٰیر منقولہ فرماں بردار اولاد کی طرف اس طرح منتقل کردینا کہ عاق نہ باپ کی زندگی میں کچھ پائے،اور نہ اس کی وفات کے بعد بطور میراث کے پاسکے ناجائز ونادرست ہے۔کسی اولاد کو دینا اور کسی کو نہ دینا حدیث مذکور بالا کے خلاف ہے،اور ترکہ ومیراث سے محروم کردینا یا محروم کرنے کی کوشش کرنا جاہلی طریقہ ہے ،جسے اسلام ناجائز و باطل قرارد یا ہے ارشاد ہے ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا﴾ (سورة النساء:7)

حقوق الوالدین دنیا آخرت میں مواخذہ الہیٰ کا سبب ہے،حرمان میراث وہبہ کا سبب نہیں ہے ،باپ اور بیٹے کے درمیان عدم توارث سبب فقط کفر ہے۔پس مسلمان اولاد مسلمان والدین کی میراث و ترکہ سے محروم نہیں ہوسکتے۔

منظور احمدنے اشہتار منسلکہ میں اپنے والد مولوی شرف الدین کے متعلق جو الفاظ ناشائستہ و نازیبا استعمال کئے ہیں،ان کی رو سے ایسی صورت میں کہ مولوی شرف الدین کبھی بدعت و معصیت او شرک و کفر کا حکم اولاد کو نہ دیا ہو،منظور احمد شرعا عاق ہے اور اس کی حقوق کی وجہ سے سخٹ گنہگار ہے۔مولوی شرف الدین کا منظور احمد کو چار سال یا زائد یا کم مدت سے عاق کرنا لغو اور مہمل ہے۔

منظوراحمد کی سرکشی و نافرمانی کی وجہ سے مولوی شرف الدین کا منظور احمد کو دیگر اولادوں کے برابر ہبہ نہ دینا حدیث مذکور بالا کے خلاف ہے۔

اسی طرح اپنی زندگی میں ایسی صورت اختیار کرنی کہ بعد وفات ان کی جائیداد متروکہ سے منظور احمد کو کچھ نہ پاسکے ناجائز ہے۔بے شک ہر شخص اپنی زندگی میں بقائمی ہوش و حواس و بحالت صحت و ثبات عقل اپنے مال میں ہرطرح تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔لیکن نافرمان اولاد کو اپنے ترکہ سے محروم کرنے کےلیے ایسے حیلے و ذرائع اختیا رکرنے اور تصرفات کرنے کن کے باعث ایسی اولاد میراث سے محروم ہوجائے شرعا جائز اور درست نہیں ہوں گے،ایسے تمام حیلے و تصرفات شرعا لغو اور کالعدم ہوں گے ،اور ایسی اولاد بھی بقیہ اولاد کی طرح مستحق میراث ہوں گی۔

پس صورت مسئولہ میں مولوی شرف الدین نے اپنی جو جائیداد میں بقیہ مطیع فرزندوں کی طرف کسی طرح منتقل کردی ہیں بعد ان کے مرنے کے ،ان کا عاق لڑکا منظور احمد بھی جائداد مذکورہ میں سے  بقدر اپنے حصہ شرعی کےلینے کا مستحق ہوگا۔ہاں منظور احمد کو یہ حق نہیں پہنچتا  کہ وہ باپ کا مقابلہ کرے دعویٰ اور نالش کرے اور عدالتی چارہ جوئی کرے یہ امر باپ کے ذمہ ہے کہ وہ اولاد میں سے ایک  دوسرے کو ترجیح نہ دے ،اور کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے،بلکہ مساوات کرے اور ظلم نہ کرے۔ورنہ اس پر مواخذہ ہوگا۔آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَصْبَحَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا. وَمَنْ أَمْسَى عَاصِيًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ النَّارِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا» قَالَ رَجُلٌ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ؟ قَالَ: «وَإِنْ ظلماهُ وإِن ظلماهُ وإِنْ ظلماهُ»

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 468

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ