سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) مال کتنے حصے کو وقف اور کتنے کو وصیت کرنا جائز ہے؟

  • 17580
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1370

سوال

(254) مال کتنے حصے کو وقف اور کتنے کو وصیت کرنا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک آدمی مرتے وقت اپنے مال سے کتنے حصہ کی وصیت یا وقف کرسکتا ہے ۔حالاں کہ اس کی زندگی میں جائز وارث موجود ہوں تو وہ وقف کتنا مال کر سکتا ہے؟ بینوا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کسی شخص کےجائز وارث اوس کی زندگی میں موجو دہوں ،تو وہ اپنے کل مال جائیداد منقولہ کا صرف تہائی حصہ وصیت یا وقف کرسکتا ہے۔ثلث مال سے زائد کی وصیت یا وقف جائز نہیں ہوگا۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں (استقر الجماع على منع الوصية بازيد من الثلث لكن اختلف فيمن كان له وارث (فتح البارى5/435)) اور ظاہر امر یہ ہے کہ اگر ورثہ ثلث مال سے زائد کی وصیت کی اجازت بھی دے دیں تب بھی ثلث سے زائد میں وصیت صحیح اور درست نہیں ہوگی۔(وَبِهِ قَالَ الْمُزَنِيُّ وَدَاوُدُ وَقَوَّاهُ السُّبْكِيُّ وَاحْتَجَّ لَهُ بِحَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ فِي الَّذِي أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ فَإِنَّ فِيهِ عِنْدَ مُسْلِمٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلًا شَدِيدًا وَفَسَّرَ الْقَوْلَ الشَّدِيدَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِأَنَّهُ قَالَ لَوْ عَلِمْتُ ذَلِكَ مَا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ وَلَمْ يُنْقَلْ أَنَّهُ رَاجَعَ الْوَرَثَةَ فَدَلَّ عَلَى مَنْعِهِ مُطْلَقًا وَبِقَوْلِهِ فِي حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ الثُّلُثُ جَائِزًا فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّ الزَّائِدَ عَلَى الثُّلُثِ لَيْسَ بِجَائِزٍ وَبِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنَعَ سَعْدًا مِنَ الْوَصِيَّةِ بِالشَّطْرِ وَلَمْ يَسْتَثْنِ صُورَةَ الْإِجَازَةِ)(فتح البارى 5/373)

اور مرتے وقت وقف کرنے کا وہی حکم ہے جو وصیت کا ہے یعنی ثلث سے زائد کا وقف درست اور صحیح نہیں ہوگا۔

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

کتبہ عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی

المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیۃ الواقعۃ بدہلی

٭ حضور اجل کے وقت وصیت کرنا اور وقف کرنا درست ہے۔لیکن ثلث مال سے زیادہ درست نہیں ۔لیکن اگر ورثہ اجازت دیویں تو زائد کی وصیت درست ہے۔(عن ابن عباس رضى الله قال  رسو ل الله صلى الله عليه وسلم:لاتجوز وصية لوارث الا ان يشاء الورثه(نيل 6/151))میں ہے وحديث ابن عباس حسنه فى التلخيص نيل6/153میں ہےقوله وَبِهِ قَالَ الْمُزَنِيُّ وَدَاوُدُ وَقَوَّاهُ السُّبْكِيُّ  حيث قالو انها لاتصح الوصية بمازاد على الثلث ولو اجاز الورثه قال فى التخليص ان صحت هذه الزيادة فهى حجة واضحة واحتجو من جهة المعنى بان المنع ان كان فى لاصل لحق الورثه فاذا اجازوه لم يمتنع

روایت مذکورہ کی تائید حدیث ابن عباس کی کرتی ہے۔رواہ البخاری(1) فقط واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 467

محدث فتویٰ

تبصرے